صحيح البخاری - - حدیث نمبر 22169
حدیث نمبر: 2137
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ:‏‏‏‏ إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ فِي أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ إِلَيْهِ الْمَلَكَ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ، ‏‏‏‏‏‏وَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعٍ يَكْتُبُ:‏‏‏‏ رِزْقَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَجَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَمَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَوَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، ‏‏‏‏‏‏فَيُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، ‏‏‏‏‏‏فَيُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،
اس متعلق کہ اعمال کا اعتبار خاتمہ پر ہے
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ ہم سے صادق و مصدوق رسول اللہ نے بیان کیا ١ ؎، تم میں سے ہر آدمی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن تک «علقة» (یعنی جمے ہوئے خون) کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن تک «مضغة» (یعنی گوشت کے لوتھڑے) کی شکل میں رہتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کے اندر روح پھونکتا ہے، پھر اسے چار چیزوں (کے لکھنے) کا حکم کیا جاتا ہے، چناچہ وہ لکھتا ہے: اس کا رزق، اس کی موت، اس کا عمل اور یہ چیز کہ وہ «شقي» (بدبخت) ہے یا «سعيد» (نیک بخت) ، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تم میں سے کوئی آدمی جنتیوں کا عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر اس کے اوپر لکھی ہوئی تقدیر غالب آتی ہے اور جہنمیوں کے عمل پر اس کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے، اور تم میں سے کوئی آدمی جہنمیوں کا عمل کرتا رہتا ہے پھر اس کے اوپر لکھی ہوئی تقدیر غالب آتی ہے اور جنتیوں کے عمل پر اس کا خاتمہ کیا جاتا ہے، لہٰذا وہ جنت میں داخل ہوتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الخلق ٦ (٣٢٠٨)، وأحادیث الأنبیاء ١ (٣٣٩٣)، صحیح مسلم/القدر ١ (٢٦٤٣)، سنن ابی داود/ السنة ١٧ (٤٧٠٨)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٠ (٧٦) (تحفة الأشراف: ٩٢٢٨)، و مسند احمد (١/٣٨٢، ٤١٤) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یعنی سچے ہیں اور سچی بات آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (76)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2137
Top