مسند امام احمد - حضرت علی (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 913
حَدَّثَنَا بَهْزٌ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ أَنْبَأَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَبِي حَسَّانَ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يَأْمُرُ بِالْأَمْرِ فَيُؤْتَى فَيُقَالُ قَدْ فَعَلْنَا كَذَا وَكَذَا فَيَقُولُ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ قَالَ فَقَالَ لَهُ الْأَشْتَرُ إِنَّ هَذَا الَّذِي تَقُولُ قَدْ تَفَشَّغَ فِي النَّاسِ أَفَشَيْءٌ عَهِدَهُ إِلَيْكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا عَهِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا خَاصَّةً دُونَ النَّاسِ إِلَّا شَيْءٌ سَمِعْتُهُ مِنْهُ فَهُوَ فِي صَحِيفَةٍ فِي قِرَابِ سَيْفِي قَالَ فَلَمْ يَزَالُوا بِهِ حَتَّى أَخْرَجَ الصَّحِيفَةَ قَالَ فَإِذَا فِيهَا مَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ قَالَ وَإِذَا فِيهَا إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَإِنِّي أُحَرِّمُ الْمَدِينَةَ حَرَامٌ مَا بَيْنَ حَرَّتَيْهَا وَحِمَاهَا كُلُّهُ لَا يُخْتَلَى خَلَاهَا وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا وَلَا تُلْتَقَطُ لُقَطَتُهَا إِلَّا لِمَنْ أَشَارَ بِهَا وَلَا تُقْطَعُ مِنْهَا شَجَرَةٌ إِلَّا أَنْ يَعْلِفَ رَجُلٌ بَعِيرَهُ وَلَا يُحْمَلُ فِيهَا السِّلَاحُ لِقِتَالٍ قَالَ وَإِذَا فِيهَا الْمُؤْمِنُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ وَيَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ أَلَا لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ
حضرت علی ؓ کی مرویات
ابوحسان کہتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب بھی کوئی حکم دیتے اور لوگ آکر کہتے کہ ہم نے اس اس طرح کرلیا تو وہ کہتے کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا: ایک دن اشتر نامی ایک شخص نے حضرت علی ؓ سے پوچھا کہ آپ جو یہ جملہ کہتے ہیں، لوگوں میں بہت پھیل چکا ہے، کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کی رسول اللہ ﷺ نے آپ کو وصیت کی ہے؟ فرمایا نبی ﷺ نے لوگوں کو چھوڑ کر خصوصیت کے ساتھ مجھے کوئی وصیت نہیں فرمائی، البتہ میں نے نبی ﷺ سے جو کچھ سنا ہے وہ ایک صحیفہ میں لکھ کر اپنی تلوار کے میان میں رکھ لیا ہے۔ لوگوں نے حضرت علی ؓ سے وہ صحیفہ دکھانے پر اصرار کیا، انہوں نے وہ نکالا تو اس میں لکھا تھا کہ جو شخص کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کا کوئی فرض یا نفل قبول نہ ہوگا، نیز اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ منورہ کو حرم قرار دیتا ہوں، اس کے دونوں کونوں کے درمیان کی جگہ قابل احترام ہے، اس کی گھاس نہ کاٹی جائے، اس کے شکار کو نہ بھگایا جائے اور یہاں کی گری پڑی چیز کو نہ اٹھایا جائے، البتہ وہ شخص اٹھا سکتا ہے جو مالک کو اس کا پتہ بتادے، یہاں کا کوئی درخت نہ کاٹا جائے البتہ اگر کوئی آدمی اپنے جانور کو چارہ کھلائے تو بات جدا ہے اور یہاں لڑائی کے لئے اسلحہ نہ اٹھایا جائے۔ نیز اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ مسلمانوں کی جانیں آپس میں برابر ہیں، ان میں سے اگر کوئی ادنیٰ بھی کسی کو امان دے دے تو اس کی امان کا لحاظ کیا جائے اور مسلمان اپنے علاوہ لوگوں پر ید واحد کی طرح ہیں، خبردار کسی کافر کے بدلے میں کسی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی ذمی کو اس وقت تک قتل کیا جائے جب تک کہ وہ معاہدے کی مدت میں ہو اور اس کی شرائط پر برقرار ہو۔
Top