مسند امام احمد - حضرت علی (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 786
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ حَدَّثَنِي سَعْدُ بْنُ عُبَيْدَةَ قَالَ تَنَازَعَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ وَحِبَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ لِحِبَّانَ قَدْ عَلِمْتُ مَا الَّذِي جَرَّأَ صَاحِبَكَ يَعْنِي عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فَمَا هُوَ لَا أَبَا لَكَ قَالَ قَوْلٌ سَمِعْتُهُ مِنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُهُ قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالزُّبَيْرَ وَأَبَا مَرْثَدٍ وَكُلُّنَا فَارِسٌ قَالَ انْطَلِقُوا حَتَّى تَبْلُغُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ فِيهَا امْرَأَةً مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَأْتُونِي بِهَا فَانْطَلَقْنَا عَلَى أَفْرَاسِنَا حَتَّى أَدْرَكْنَاهَا حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا قَالَ وَكَانَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ بِمَسِيرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا لَهَا أَيْنَ الْكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ قَالَتْ مَا مَعِي كِتَابٌ فَأَنَخْنَا بِهَا بَعِيرَهَا فَابْتَغَيْنَا فِي رَحْلِهَا فَلَمْ نَجِدْ فِيهِ شَيْئًا فَقَالَ صَاحِبَايَ مَا نَرَى مَعَهَا كِتَابًا فَقُلْتُ لَقَدْ عَلِمْتُمَا مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ حَلَفْتُ وَالَّذِي أَحْلِفُ بِهِ لَئِنْ لَمْ تُخْرِجِي الْكِتَابَ لَأُجَرِّدَنَّكِ فَأَهْوَتْ إِلَى حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ فَأَخْرَجَتْ الصَّحِيفَةَ فَأَتَوْا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَهُ قَالَ يَا حَاطِبُ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا بِي أَنْ لَا أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَلَكِنِّي أَرَدْتُ أَنْ تَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِكَ إِلَّا لَهُ هُنَاكَ مِنْ قَوْمِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ قَالَ صَدَقْتَ فَلَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَهُ قَالَ أَوَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمْ الْجَنَّةُ فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَا عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ
حضرت علی ؓ کی مرویات
حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے مجھے، حضرت زبیر ؓ اور حضرت ابومرثد ؓ کہ ہم میں سے ہر ایک شہسوار تھا کو ایک جگہ بھیجتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ روانہ ہوجاؤ، جب تم روضہ خاخ میں پہنچو گے تو وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہوگا جو حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین کے نام ہوگا تم اس سے وہ خط لے کر واپس آجانا، چناچہ ہم لوگ روانہ ہوگئے، ہمارے گھوڑے ہمارے ہاتھوں سے نکلے جاتے تھے، یہاں تک کہ ہم روضہ خاخ جا پہنچے، وہاں ہمیں واقعۃ ایک عورت ملی جو اپنے اونٹ پر چلی جا رہی تھی ہم نے اس سے کہا کہ تیرے پاس جو خط ہے وہ نکال دے، اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں، ہم نے اس کا اونٹ بٹھایا اس کے کجاوے کی تلاشی لی لیکن کچھ نہ ملا میرے دونوں ساتھیوں نے کہا کہ اس کے پاس تو ہمارے خیال میں کوئی خط نہیں ہے، میں نے کہا آپ جانتے ہیں کہ نبی ﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، پھر میں نے قسم کھا کر کہا کہ یا تو تو خود ہی خط نکال دے ورنہ ہم تجھے برہنہ کردیں گے۔ مجبور ہو کر اس نے اپنے بالوں کی چوٹی میں سے ایک خط نکال کر ہمارے حوالے کردیا، ہم وہ خط لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، لوگ کہنے لگے یا رسول اللہ! اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے، مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دیجئے۔ نبی ﷺ نے ان سے پوچھا کہ حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ کی قسم میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں، بات یہ ہے کہ میں قریش سے تعلق نہیں رکھتا، البتہ ان میں شامل ہوگیا ہوں، آپ کے ساتھ جتنے بھی مہاجرین ہیں، ان کے مکہ مکرمہ میں رشتہ دار موجود ہیں جن سے وہ اپنے اہل خانہ کی حفاظت کروا لیتے ہیں، میں نے سوچا کہ میرا وہاں کوئی نسبی رشتہ دار تو موجود نہیں ہے، اس لئے ان پر ایک احسان کردوں تاکہ وہ اس کے عوض میرے رشتہ داروں کی حفاظت کریں، نبی ﷺ نے فرمایا تم نے سچ بیان کیا ان کے متعلق اچھی بات ہی کہنا، حضرت عمر ؓ نے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر فرمایا یا رسول اللہ! اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے، مجھے اجازت دیجئے کہ اس کی گردن اڑا دوں؟ نبی ﷺ نے فرمایا یہ غزوہ بدر میں شریک ہوچکے ہیں اور تمہیں کیا خبر کہ اللہ نے آسمان سے اہل بدر کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا تم جو کچھ کرتے رہو، میں تمہارے لئے جنت کو واجب کرچکا، اس پر حضرت عمر ؓ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور وہ فرمانے لگے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔
Top