مسند امام احمد - حضرت علی (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 687
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا أَبِي سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ يُحَدِّثُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِلنَّاسِ مَا تَرَوْنَ فِي فَضْلٍ فَضَلَ عِنْدَنَا مِنْ هَذَا الْمَالِ فَقَالَ النَّاسُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ شَغَلْنَاكَ عَنْ أَهْلِكَ وَضَيْعَتِكَ وَتِجَارَتِكَ فَهُوَ لَكَ فَقَالَ لِي مَا تَقُولُ أَنْتَ فَقُلْتُ قَدْ أَشَارُوا عَلَيْكَ فَقَالَ لِي قُلْ فَقُلْتُ لِمَ تَجْعَلُ يَقِينَكَ ظَنًّا فَقَالَ لَتَخْرُجَنَّ مِمَّا قُلْتَ فَقُلْتُ أَجَلْ وَاللَّهِ لَأَخْرُجَنَّ مِنْهُ أَتَذْكُرُ حِينَ بَعَثَكَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعِيًا فَأَتَيْتَ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَنَعَكَ صَدَقَتَهُ فَكَانَ بَيْنَكُمَا شَيْءٌ فَقُلْتَ لِي انْطَلِقْ مَعِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْنَاهُ خَاثِرًا فَرَجَعْنَا ثُمَّ غَدَوْنَا عَلَيْهِ فَوَجَدْنَاهُ طَيِّبَ النَّفْسِ فَأَخْبَرْتَهُ بِالَّذِي صَنَعَ فَقَالَ لَكَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ وَذَكَرْنَا لَهُ الَّذِي رَأَيْنَاهُ مِنْ خُثُورِهِ فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ وَالَّذِي رَأَيْنَاهُ مِنْ طِيبِ نَفْسِهِ فِي الْيَوْمِ الثَّانِي فَقَالَ إِنَّكُمَا أَتَيْتُمَانِي فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ وَقَدْ بَقِيَ عِنْدِي مِنْ الصَّدَقَةِ دِينَارَانِ فَكَانَ الَّذِي رَأَيْتُمَا مِنْ خُثُورِي لَهُ وَأَتَيْتُمَانِي الْيَوْمَ وَقَدْ وَجَّهْتُهُمَا فَذَاكَ الَّذِي رَأَيْتُمَا مِنْ طِيبِ نَفْسِي فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صَدَقْتَ وَاللَّهِ لَأَشْكُرَنَّ لَكَ الْأُولَى وَالْآخِرَةَ
حضرت علی ؓ کی مرویات
حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ نے لوگوں سے فرمایا کہ ہمارے پاس یہ جو کچھ زائد مال بچ گیا ہے اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے؟ لوگوں نے کہا کہ امیر المومنین! آپ ہماری وجہ سے اپنے اہل خانہ اپنے کاروبار اور تجارت سے رہ گئے ہیں، اس لئے یہ آپ رکھ رلیں، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ لوگوں نے آپ کو مشورہ دے تو دیا ہے، انہوں نے فرمایا کہ آپ بھی تو کوئی رائے دیجئے، میں نے عرض کیا کہ آپ اپنے یقین کو گمان میں کیوں تبدیل کر رہے؟ فرمایا آپ اپنی بات کی وضاحت خود ہی کردیں۔ میں نے کہا بہت بہتر، میں اس کی ضرور وضاحت کروں گا، آپ کو یاد ہوگا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے آپ کو صدقات و زکوٰۃ کی وصولی کے لئے بھیجا تھا، آپ حضرت عباس ؓ کے پاس آئے، انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا، آپ دونوں کے درمیان کچھ اونچ نیچ ہوگئی۔ آپ نے مجھ سے کہا کہ میرے ساتھ نبی ﷺ کے پاس چلو، ہم وہاں پہنچے تو ہم نے نبی ﷺ میں وہ نشاط نہ دیکھا جو ہوتا تھا، چناچہ ہم واپس آگئے، اگلے دن جب ہم دوبارہ حاضر ہوئے تو اس وقت ہم نے نبی ﷺ کو ہشاش بشاش پایا، پھر آپ نے انہیں حضرت عباس ؓ کے حوالے سے بتایا، انہوں نے آپ سے فرمایا کہ کیا آپ کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ انسان کا چچا اس کے باپ کے مرتبہ میں ہوتا ہے۔ پھر ہم نے نبی ﷺ سے پہلے دن کی کیفیت اور دوسرے دن کی کیفیت کے حوالے سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب آپ دونوں پہلے دن میرے پاس آئے تھے تو میرے پاس زکوٰۃ کے دو دینار بچ گئے تھے، یہی وجہ تھی کہ آپ نے مجھے بوجھل طبیعت میں دیکھا اور جب آج آپ دونوں میرے پاس آئے تو میں وہ کسی کودے چکا تھا اسی وجہ سے آپ نے مجھے ہشاش بشاش پایا، حضرت عمر ؓ نے حضرت علی ؓ سے یہ سن کر فرمایا آپ نے صحیح فرمایا: بخدا! میں دنیا و آخرت میں آپ کا شکر گذار رہوں گا۔
Top