مسند امام احمد - حضرت علی (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 532
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد قَالَ حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ بِعَرَفَةَ وَهُوَ مُرْدِفٌ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ فَقَالَ هَذَا الْمَوْقِفُ وَكُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ ثُمَّ دَفَعَ يَسِيرُ الْعَنَقَ وَجَعَلَ النَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا وَهُوَ يَلْتَفِتُ وَيَقُولُ السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ حَتَّى جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ وَجَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ ثُمَّ وَقَفَ بِالْمُزْدَلِفَةِ فَوَقَفَ عَلَى قُزَحَ وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ وَقَالَ هَذَا الْمَوْقِفُ وَكُلُّ الْمُزْدَلِفَةِ مَوْقِفٌ ثُمَّ دَفَعَ وَجَعَلَ يَسِيرُ الْعَنَقَ وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا وَهُوَ يَلْتَفِتُ وَيَقُولُ السَّكِينَةَ السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ حَتَّى جَاءَ مُحَسِّرًا فَقَرَعَ رَاحِلَتَهُ فَخَبَّتْ حَتَّى خَرَجَ ثُمَّ عَادَ لِسَيْرِهِ الْأَوَّلِ حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ ثُمَّ جَاءَ الْمَنْحَرَ فَقَالَ هَذَا الْمَنْحَرُ وَكُلُّ مِنًى مَنْحَرٌ ثُمَّ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ شَابَّةٌ مِنْ خَثْعَمَ فَقَالَتْ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ وَقَدْ أَفْنَدَ وَأَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ وَلَا يَسْتَطِيعُ أَدَاءَهَا فَيُجْزِئُ عَنْهُ أَنْ أُؤَدِّيَهَا عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ وَجَعَلَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ عَنْهَا ثُمَّ أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ إِنِّي رَمَيْتُ الْجَمْرَةَ وَأَفَضْتُ وَلَبِسْتُ وَلَمْ أَحْلِقْ قَالَ فَلَا حَرَجَ فَاحْلِقْ ثُمَّ أَتَاهُ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ إِنِّي رَمَيْتُ وَحَلَقْتُ وَلَبِسْتُ وَلَمْ أَنْحَرْ فَقَالَ لَا حَرَجَ فَانْحَرْ ثُمَّ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا بِسَجْلٍ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ فَشَرِبَ مِنْهُ وَتَوَضَّأَ ثُمَّ قَالَ انْزِعُوا يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَوْلَا أَنْ تُغْلَبُوا عَلَيْهَا لَنَزَعْتُ قَالَ الْعَبَّاسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي رَأَيْتُكَ تَصْرِفُ وَجْهَ ابْنِ أَخِيكَ قَالَ إِنِّي رَأَيْتُ غُلَامًا شَابًّا وَجَارِيَةً شَابَّةً فَخَشِيتُ عَلَيْهِمَا الشَّيْطَانَ
حضرت علی ؓ کی مرویات
حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر غروب شمس کے بعد آپ ﷺ روانہ ہوئے اپنے پیچھے حضرت اسامہ کو بٹھالیا اور اپنی سواری کی رفتار تیز کردی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی ﷺ ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے لوگو! سکون اور اطمینان اختیار کرو، پھر آپ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور رات بھر وہیں رہے صبح ہوئی تو آپ ﷺ جبل قزح پر تشریف لائے وہاں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے پھر آپ ﷺ چلتے ہوئے وادی محسر پہنچے وہاں ایک لمحے کے لئے رکے پھر اپنی اونٹنی کو سرپٹ دوڑا دیا تاآنکہ اس وادی سے نکل گئے (کیونکہ یہ عذاب کی جگہ تھی)۔ پھر سواری روک کر اپنے پیچھے حضرت فضل ؓ کو بٹھالیا اور چلتے چلتے منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر قربان گاہ تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ پورا ہی قربان گاہ ہے، اتنی دیر میں بنوخثعم کی ایک نوجوان عورت کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ تقریبا ختم ہوچکے ہیں لیکن ان پر حج بھی فرض ہے، کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ نبی ﷺ نے فرمایا ہاں! تم اپنے والد کی طرف سے حج کرسکتی ہو، یہ کہتے ہوئے نبی ﷺ نے حضرت فضل ؓ کی گردن موڑ دی (کیونکہ وہ اس عورت کو دیکھنے لگے تھے)۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں نے جمرہ عقبہ کی رمی کرلی، طواف زیارت کرلیا، کپڑے پہن لئے لیکن حلق نہیں کروا سکا اب کیا کروں؟ فرمایا اب حلق کرلو، کوئی حرج نہیں، ایک اور شخص نے آکر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے قربانی سے پہلے جمرہ عقبہ کی رمی کرلی، حلق کروا لیا، کپڑے پہن لئے؟ فرمایا کوئی بات نہیں، اب قربانی کرلو۔ اس کے بعد نبی ﷺ طواف زیارت کے لئے حرم شریف پہنچے، طواف کیا، زمزم پیا اور فرمایا بنو عبدالمطلب! حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری پوری کرتے رہو، اگر لوگ تم پر غالب نہ آجاتے تو میں بھی اس میں سے ڈول کھینچ کھینچ کر نکالتا۔ حضرت عباس ؓ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ! آپ نے اپنے بھتیجے کی گردن کس حکمت کی بناء پر موڑی؟ نبی ﷺ نے فرمایا میں نے دیکھا کہ دونوں نوجوان ہیں، مجھے ان کے بارے شیطان سے امن نہ ہوا اس لئے دونوں کا رخ پھیر دیا۔
Top