مسند امام احمد - حضرت علی (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 1244
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ النَّرْسِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ عَنْ أَبِي الْوَرْدِ عَنِ ابْنِ أَعْبُدَ قَالَ قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا ابْنَ أَعْبُدَ هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الطَّعَامِ قَالَ قُلْتُ وَمَا حَقُّهُ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ قَالَ تَقُولُ بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيمَا رَزَقْتَنَا قَالَ وَتَدْرِي مَا شُكْرُهُ إِذَا فَرَغْتَ قَالَ قُلْتُ وَمَا شُكْرُهُ قَالَ تَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا ثُمَّ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكَ عَنِّي وَعَنْ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَانَتْ ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَتْ مِنْ أَكْرَمِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ وَكَانَتْ زَوْجَتِي فَجَرَتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَ الرَّحَى بِيَدِهَا وَأَسْقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَتْ الْقِرْبَةُ بِنَحْرِهَا وَقَمَّتْ الْبَيْتَ حَتَّى اغْبَرَّتْ ثِيَابُهَا وَأَوْقَدَتْ تَحْتَ الْقِدْرِ حَتَّى دَنِسَتْ ثِيَابُهَا فَأَصَابَهَا مِنْ ذَلِكَ ضَرَرٌ فَقُدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْيٍ أَوْ خَدَمٍ قَالَ فَقُلْتُ لَهَا انْطَلِقِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْأَلِيهِ خَادِمًا يَقِيكِ حَرَّ مَا أَنْتِ فِيهِ فَانْطَلَقَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَتْ عِنْدَهُ خَدَمًا أَوْ خُدَّامًا فَرَجَعَتْ وَلَمْ تَسْأَلْهُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ فَقَالَ أَلَا أَدُلُّكِ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكِ مِنْ خَادِمٍ إِذَا أَوَيْتِ إِلَى فِرَاشِكِ سَبِّحِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَاحْمَدِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَكَبِّرِي أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ قَالَ فَأَخْرَجَتْ رَأْسَهَا فَقَالَتْ رَضِيتُ عَنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ مَرَّتَيْنِ فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ عُلَيَّةَ عَنِ الْجُرَيْرِيِّ أَوْ نَحْوَهُ
حضرت علی ؓ کی مرویات
ابن اعبد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی ؓ نے مجھ سے فرمایا ابن اعبد! تمہیں معلوم ہے کہ کھانے کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا آپ ہی بتائیے کہ اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا کھانے کا حق یہ ہے کہ اس کے آغاز میں یوں کہو بسم اللہ اللہم بارک لنا فیما رزقتنا، کہ اللہ کے نام سے شروع کر رہاہوں، اے اللہ! تو نے ہمیں جو عطاء فرما رکھا ہے اس میں برکت پیدا فرما۔ پھر مجھ سے فرمایا کہ کھانے سے فراغت کے بعد اس کا شکر کیا ہے، تمہیں معلوم ہے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ ہی بتایئے کہ اس کا شکر کیا ہے؟ فرمایا تم یوں کہو الحمدللہ الذی اطعمنا وسقانا، اس اللہ کا شکر جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا، پھر فرمایا کہ کیا میں تمہیں اپنی اور حضرت فاطمہ ؓ کی ایک بات نہ بتاؤں؟ حضرت فاطمہ ؓ نبی ﷺ کی صاحبزادی بھی تھیں، نبی ﷺ کی نگاہوں میں تمام بچوں سے زیادہ قابل عزت بھی تھیں اور میری رفیقہ حیات بھی تھیں، انہوں نے اتنی چکی چلائی کہ ان کے ہاتھوں میں اس کے نشان پڑگئے اور اتنے مشکیزے ڈھوئے کہ ان کی گردن پر اس کے نشان پڑگئے گھر کو اتنا سنوارا کہ اپنے کپڑے غبار آلود ہوگئے، ہانڈی کے نیچے اتنی آگ جلائی کہ کپڑے بیکار ہوگئے جس سے انہیں جسمانی طور پر شدید اذیت ہوئی۔ اتفاقا انہی دنوں نبی ﷺ کے پاس کچھ قیدی یا خادم آئے ہوئے تھے، میں نے ان سے کہا کہ جا کر نبی ﷺ سے ایک خادم کی درخواست کرو تاکہ اس گرمی سے تو بچ جاؤ، چناچہ وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، انہوں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ کے پاس ایک یا کئی خادم موجود ہیں، لیکن وہ اپنی درخواست پیش نہ کرسکیں اور واپس آگئیں۔ اس کے بعد راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور آخر میں نبی ﷺ کا یہ فرمان ذکر کیا کہ کیا میں تمہیں خادم سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ جب تم اپنے بستر پر لیٹو تو ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ، ٣٣ مرتبہ الحمدللہ اور ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو، اس پر انہوں نے چادر سے اپنا سر نکال کر کہا کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے راضی ہوں، پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
Top