مسند امام احمد - حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 17115
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ قَالَ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ شِمَاسَةَ حَدَّثَهُ قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ الْوَفَاةُ بَكَى فَقَالَ لَهُ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ لِمَ تَبْكِي أَجَزَعًا عَلَى الْمَوْتِ فَقَالَ لَا وَاللَّهِ وَلَكِنْ مِمَّا بَعْدُ فَقَالَ لَهُ قَدْ كُنْتَ عَلَى خَيْرٍ فَجَعَلَ يُذَكِّرُهُ صُحْبَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفُتُوحَهُ الشَّامَ فَقَالَ عَمْرٌو تَرَكْتَ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ شَهَادَةَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ إِنِّي كُنْتُ عَلَى ثَلَاثَةِ أَطْبَاقٍ لَيْسَ فِيهَا طَبَقٌ إِلَّا قَدْ عَرَفْتُ نَفْسِي فِيهِ كُنْتُ أَوَّلَ شَيْءٍ كَافِرًا فَكُنْتُ أَشَدَّ النَّاسِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَوْ مِتُّ حِينَئِذٍ وَجَبَتْ لِي النَّارُ فَلَمَّا بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنْتُ أَشَدَّ النَّاسِ حَيَاءً مِنْهُ فَمَا مَلَأْتُ عَيْنِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا رَاجَعْتُهُ فِيمَا أُرِيدُ حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَيَاءً مِنْهُ فَلَوْ مِتُّ يَوْمَئِذٍ قَالَ النَّاسُ هَنِيئًا لِعَمْرٍو أَسْلَمَ وَكَانَ عَلَى خَيْرٍ فَمَاتَ فَرُجِيَ لَهُ الْجَنَّةُ ثُمَّ تَلَبَّسْتُ بَعْدَ ذَلِكَ بِالسُّلْطَانِ وَأَشْيَاءَ فَلَا أَدْرِي عَلَيَّ أَمْ لِي فَإِذَا مِتُّ فَلَا تَبْكِيَنَّ عَلَيَّ وَلَا تُتْبِعْنِي مَادِحًا وَلَا نَارًا وَشُدُّوا عَلَيَّ إِزَارِي فَإِنِّي مُخَاصِمٌ وَسُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ سَنًّا فَإِنَّ جَنْبِيَ الْأَيْمَنَ لَيْسَ بِأَحَقَّ بِالتُّرَابِ مِنْ جَنْبِي الْأَيْسَرِ وَلَا تَجْعَلَنَّ فِي قَبْرِي خَشَبَةً وَلَا حَجَرًا فَإِذَا وَارَيْتُمُونِي فَاقْعُدُوا عِنْدِي قَدْرَ نَحْرِ جَزُورٍ وَتَقْطِيعِهَا أَسْتَأْنِسْ بِكُمْ
حضرت عمروبن عاص ؓ کی مرویات
حضرت عمرو بن عاص ؓ کی وفات کا جب وقت آیا تو ان پر گریہ طاری ہوگیا، ان کے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ نے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں؟ کیا موت سے گھبراہٹ محسوس ہو رہی ہے؟ انہوں نے جوابا فرمایا بخدا! موت سے نہیں، بلکہ موت کے بعد پیش آنے والے معاملات سے، صاحبزادے نے کہا کہ آپ تو خیر پر قائم رہے، پھر انہوں نے نبی ﷺ کی رفاقت اور فتوحات شام کا تذکرہ کیا۔ حضرت عمرو ؓ کہنے لگے کہ تم نے سب سے افضل چیز تو چھوڑ ہی دی یعنی لا الہ الا اللہ کی گواہی میری تین حالتیں رہی ہیں اور ہر حالت میں میں اپنے متعلق جانتا ہوں، سب سے پہلے میں کافر تھا، نبی ﷺ کے خلاف تمام لوگوں میں انتہائی سخت تھا، اگر میں اسی حال میں مرجاتا تو میرے لئے جہنم واجب ہوجاتی، جب میں نے نبی سے بیعت کی تو میں نبی ﷺ سے تمام لوگوں کی نسبت زیادہ حیاء کرتا تھا، اسی وجہ سے میں نے نگاہیں بھر کر، کبھی نبی ﷺ کو نہیں دیکھا اور اپنی خواہشات میں بھی کبھی انہیں جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملے، اگر میں اس زمانے میں فوت ہوجاتا تو لوگ کہتے کہ عمرو کو مبارک ہو، اس نے اسلام قبول کیا، وہ خیر پر تھا، اسی حال میں فوت ہوگیا، امید ہے کہ اسے جنت نصیب ہوگی۔ پھر میں حکومت اور دوسری چیزوں میں ملوث ہوگیا، اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ میرے لئے باعث وبال ہے یا باعث ثواب، لیکن جب میں مرجاؤں تو تم مجھ پر مت رونا، کسی تعریف کرنے والے کو یا آگ کو جنازے کے ساتھ نہ لے جانا، میرا تہبند مضبوطی سے باندھ دو کہ مجھ سے جواب طلبی ہوگی، مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا اور سب طرف بکھیر دینا کیونکہ دایاں پہلو بائٰیں پہلو سے زیادہ حق نہیں رکھتا، میری قبر پر کوئی لکڑی یا پتھر نہ گاڑنا اور جب تم مجھے قبر کی مٹی میں چھپا کر فارغ ہوجاؤ تو اتنی دیر قبر پر رکنا کہ جس میں ایک اونٹ ذبح کر کے اس کے ٹکڑے بنا لئے جائیں تاکہ میں تم سے انس حاصل کرسکوں۔
Top