مسند امام احمد - حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 17112
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ رَاشِدٍ مَوْلَى حَبِيبِ بْنِ أَبِي أَوْسٍ الثَّقَفِيِّ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي أَوْسٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ مِنْ فِيهِ قَالَ لَمَّا انْصَرَفْنَا مِنْ الْأَحْزَابِ عَنْ الْخَنْدَقِ جَمَعْتُ رِجَالًا مِنْ قُرَيْشٍ كَانُوا يَرَوْنَ مَكَانِي وَيَسْمَعُونَ مِنِّي فَقُلْتُ لَهُمْ تَعْلَمُونَ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَى أَمْرَ مُحَمَّدٍ يَعْلُو الْأُمُورَ عُلُوًّا كَبِيرًا مُنْكَرًا وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ رَأْيًا فَمَا تَرَوْنَ فِيهِ قَالُوا وَمَا رَأَيْتَ قَالَ رَأَيْتُ أَنْ نَلْحَقَ بِالنَّجَاشِيِّ فَنَكُونَ عِنْدَهُ فَإِنْ ظَهَرَ مُحَمَّدٌ عَلَى قَوْمِنَا كُنَّا عِنْدَ النَّجَاشِيِّ فَإِنَّا أَنْ نَكُونَ تَحْتَ يَدَيْهِ أَحَبُّ إِلَيْنَا مِنْ أَنْ نَكُونَ تَحْتَ يَدَيْ مُحَمَّدٍ وَإِنْ ظَهَرَ قَوْمُنَا فَنَحْنُ مَنْ قَدْ عُرِفَ فَلَنْ يَأْتِيَنَا مِنْهُمْ إِلَّا خَيْرٌ فَقَالُوا إِنَّ هَذَا الرَّأْيُ قَالَ فَقُلْتُ لَهُمْ فَاجْمَعُوا لَهُ مَا نُهْدِي لَهُ وَكَانَ أَحَبَّ مَا يُهْدَى إِلَيْهِ مِنْ أَرْضِنَا الْأَدَمُ فَجَمَعْنَا لَهُ أُدْمًا كَثِيرًا فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا عَلَيْهِ فَوَاللَّهِ إِنَّا لَعِنْدَهُ إِذْ جَاءَ عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيُّ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ بَعَثَهُ إِلَيْهِ فِي شَأْنِ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِهِ قَالَ فَدَخَلَ عَلَيْهِ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ قَالَ فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي هَذَا عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيُّ لَوْ قَدْ دَخَلْتُ عَلَى النَّجَاشِيِّ فَسَأَلْتُهُ إِيَّاهُ فَأَعْطَانِيهِ فَضَرَبْتُ عُنُقَهُ فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ رَأَتْ قُرَيْشٌ أَنِّي قَدْ أَجْزَأْتُ عَنْهَا حِينَ قَتَلْتُ رَسُولَ مُحَمَّدٍ قَالَ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ فَسَجَدْتُ لَهُ كَمَا كُنْتُ أَصْنَعُ فَقَالَ مَرْحَبًا بِصَدِيقِي أَهْدَيْتَ لِي مِنْ بِلَادِكَ شَيْئًا قَالَ قُلْتُ نَعَمْ أَيُّهَا الْمَلِكُ قَدْ أَهْدَيْتُ لَكَ أُدْمًا كَثِيرًا قَالَ ثُمَّ قَدَّمْتُهُ إِلَيْهِ فَأَعْجَبَهُ وَاشْتَهَاهُ ثُمَّ قُلْتُ لَهُ أَيُّهَا الْمَلِكُ إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا خَرَجَ مِنْ عِنْدِكَ وَهُوَ رَسُولُ رَجُلٍ عَدُوٍّ لَنَا فَأَعْطِنِيهِ لِأَقْتُلَهُ فَإِنَّهُ قَدْ أَصَابَ مِنْ أَشْرَافِنَا وَخِيَارِنَا قَالَ فَغَضِبَ ثُمَّ مَدَّ يَدَهُ فَضَرَبَ بِهَا أَنْفَهُ ضَرْبَةً ظَنَنْتُ أَنْ قَدْ كَسَرَهُ فَلَوْ انْشَقَّتْ لِي الْأَرْضُ لَدَخَلْتُ فِيهَا فَرَقًا مِنْهُ ثُمَّ قُلْتُ أَيُّهَا الْمَلِكُ وَاللَّهِ لَوْ ظَنَنْتُ أَنَّكَ تَكْرَهُ هَذَا مَا سَأَلْتُكَهُ فَقَالَ لَهُ أَتَسْأَلُنِي أَنْ أُعْطِيَكَ رَسُولَ رَجُلٍ يَأْتِيهِ النَّامُوسُ الْأَكْبَرُ الَّذِي كَانَ يَأْتِي مُوسَى لِتَقْتُلَهُ قَالَ قُلْتُ أَيُّهَا الْمَلِكُ أَكَذَاكَ هُوَ فَقَالَ وَيْحَكَ يَا عَمْرُو أَطِعْنِي وَاتَّبِعْهُ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَعَلَى الْحَقِّ وَلَيَظْهَرَنَّ عَلَى مَنْ خَالَفَهُ كَمَا ظَهَرَ مُوسَى عَلَى فِرْعَوْنَ وَجُنُودِهِ قَالَ قُلْتُ فَبَايِعْنِي لَهُ عَلَى الْإِسْلَامِ قَالَ نَعَمْ فَبَسَطَ يَدَهُ وَبَايَعْتُهُ عَلَى الْإِسْلَامِ ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَى أَصْحَابِي وَقَدْ حَالَ رَأْيِي عَمَّا كَانَ عَلَيْهِ وَكَتَمْتُ أَصْحَابِي إِسْلَامِي ثُمَّ خَرَجْتُ عَامِدًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُسْلِمَ فَلَقِيتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ وَذَلِكَ قُبَيْلَ الْفَتْحِ وَهُوَ مُقْبِلٌ مِنْ مَكَّةَ فَقُلْتُ أَيْنَ يَا أَبَا سُلَيْمَانَ قَالَ وَاللَّهِ لَقَدْ اسْتَقَامَ الْمَنْسِمُ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَنَبِيٌّ أَذْهَبُ وَاللَّهِ أُسْلِمُ فَحَتَّى مَتَى قَالَ قُلْتُ وَاللَّهِ مَا جِئْتُ إِلَّا لِأُسْلِمَ قَالَ فَقَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدِمَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَأَسْلَمَ وَبَايَعَ ثُمَّ دَنَوْتُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُبَايِعُكَ عَلَى أَنْ تَغْفِرَ لِي مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِي وَلَا أَذْكُرُ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَمْرُو بَايِعْ فَإِنَّ الْإِسْلَامَ يَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهُ وَإِنَّ الْهِجْرَةَ تَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهَا قَالَ فَبَايَعْتُهُ ثُمَّ انْصَرَفْتُ قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ وَقَدْ حَدَّثَنِي مَنْ لَا أَتَّهِمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَةَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ كَانَ مَعَهُمَا أَسْلَمَ حِينَ أَسْلَمَا
حضرت عمروبن عاص ؓ کی مرویات
حضرت عمرو بن عاص ؓ سے مروی ہے کہ (قبول اسلام سے پہلے) جب ہم لوگ غزوہ خندق سے واپس ہوئے تو میں نے قریش کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا جو میرے مرتبے سے واقف اور میری بات سنتے تھے اور ان سے کہا کہ تم جانتے ہو، محمد ﷺ کو ناپسندیدہ طور پر بہت سے معاملات میں غالب آتے جا رہے ہیں، میری ایک رائے ہے، تم اس میں مجھے مشورہ دو، انہوں نے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ عمرو نے کہا میری رائے یہ ہے کہ ہم نجاشی کے پاس چلے جائیں اور وہیں رہ پڑیں، اگر محمد ﷺ اپنی قوم پر غالب آگئے تو ہم نجاشی کے پاس ہوں گے اور اس کے زیر نگیں ہونا ہمارے نزدیک محمد ﷺ کے زیر نگیں ہونے سے زیادہ بہتر ہوگا اور اگر ہماری قوم غالب آگئی تو ہم جانے پہچانے لوگ ہیں لہذا ان سے ہمیں بہتری ہی کی امید ہے، وہ کہنے لگے کہ یہ تو بہت عمدہ رائے ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ پھر نجاشی کو ہدیہ پیش کرنے کے لئے کچھ جمع کرو، اس وقت ہمارے علاقوں میں سب سے زیادہ بہترین ہدیہ چمڑا ہوتا تھا لہذا ہم نے بہت سا چمڑا جمع کرلیا اور روانہ ہوگئے، جب ہم وہاں پہنچے تو ابھی اس کے پاس ہی تھے کہ حضرت عمرو بن امیہ ضمری ؓ نجاشی کے پاس آگئے جنہیں نبی ﷺ نے حضرت جعفر اور ان کے ساتھیوں کے حوالے سے نجاشی کے پاس بھیجا تھا جب وہ واپس چلے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ عمرو بن امیہ ضمری ہے، اگر میں نجاشی کے پاس گیا تو اس سے درخواست کروں گا کہ عمرو کو میرے حوالے کر دے، اگر اس نے اسے میرے حوالے کردیا تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور قریش کے لوگ بھی دیکھ لیں گے کہ جب میں نے محمد ﷺ کے قاصد کو قتل کردیا تو ان کی طرف سے بدلہ چکا دیا۔ چناچہ میں نے نجاشی کے پاس پہنچ کر اسے سجدہ کیا جیسا کہ پہلے بھی کرتا تھا، نجاشی نے کہا کہ میرے دوست کو خوش آمدید، کیا تم اپنے علاقے سے میرے لئے کچھ ہدیہ لائے ہو؟ میں نے کہا جی، بادشاہ سلامت! میں آپ کے لئے بہت سا چمڑا ہدیئے میں لے کر آیا ہوں، یہ کہہ کر میں نے وہ چمڑا اس کی خدمت میں پیش کردیا، اسے وہ بہت پسند آیا، پھر میں نے اس سے کہا کہ بادشاہ سلامت! میں نے ابھی آپ کے پاس سے ایک آدمی کو نکلتے ہوئے دیکھا جو ہمارے ایک دشمن کا قاصد ہے، آپ اسے میرے حوالے کردیں تاکہ میں اسے قتل کرسکوں، کیونکہ اس نے ہمارے بہت سے معززین اور بہترین لوگوں کو زخم پہنچائے ہیں یہ سن کر نجاشی غضب ناک ہوگیا اور اپنا ہاتھ کھینچ کر اپنی ناک پر اتنی زور سے مارا کہ میں سمجھا کہ اس کی ناک ٹوٹ گئی ہے اس وقت اگر زمین شق ہوجاتی تو میں اس میں اتر جاتا، میں نے کہا بادشاہ سلامت! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ کو یہ بات اتنی ناگوار گذرے گی تو میں آپ سے کبھی اس کی درخواست نہ کرتا۔ نجاشی نے کہا کہ کیا تم مجھ سے اس شخص کا قاصد مانگتے ہو جس کے پاس وہی ناموس اکبر آتا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آتا تھا تاکہ تم اسے قتل کردو؟ میں نے پوچھا بادشاہ سلامت! کیا واقعی اسی طرح ہے؟ نجاشی نے کہا عمرو! تم پر افسوس ہے، میری بات مانو تو ان کی اتباع کرلو، واللہ وہ حق پر ہیں اور وہ اپنے مخالفین پر ضرور غالب آئیں گے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور اس کے لشکروں پر غالب آئے تھے میں نے کہا کیا آپ ان کی طرف سے مجھے اسلام پر بیعت کرتے ہیں؟ نجاشی نے ہاں میں جواب دے کر اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور میں نے اس سے اسلام پر بیعت کرلی۔ پھر میں اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آیا تو میری حالت اور رائے پہلے سے بدل چکی تھی، میں نے اپنے ساتھیوں سے اپنے اسلام کو مخفی رکھا اور کچھ ہی عرصے بعد قبول اسلام کے لئے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضری کے ارادے سے روانہ ہوگیا، راستے میں حضرت خالد بن ولید ؓ سے ملاقات ہوئی، یہ واقعہ فتح مکہ سے پہلے کا ہے، وہ مکہ مکرمہ سے آرہے تھے، میں نے ان سے پوچھا ابو سلیمان! کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! آلات درست ہوچکے، وہ شخص یقینا نبی ہے اور اب میں اسلام قبول کرنے کے لئے جا رہا ہوں، کب تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا؟ میں نے کہا کہ واللہ میں بھی اسلام قبول کرنے کے لئے حبشہ سے آرہا ہوں۔ چناچہ ہم لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، پہلے حضرت خالد بن ولید ؓ نے آگے بڑھ کر اسلام قبول کیا اور بیعت کی، پھر میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں اس شرط پر آپ سے بیعت کرتا ہوں کہ آپ میری پچھلی خطاؤں کو معاف کردیں، بعد کے گناہوں کا میں تذکرہ نہیں کرتا، نبی ﷺ نے فرمایا عمرو! بیعت کرلو، کیونکہ اسلام پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور اس طرح ہجرت بھی پچھلے گناہوں کو ختم کردیتی ہے، چناچہ میں نے بھی بیعت کرلی اور واپس لوٹ آیا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے بعض بااعتماد لوگوں نے بتایا ہے کہ ان دونوں کے ساتھ عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ بھی تھے اور انہوں نے بھی ان دونوں کے ساتھ ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔
Top