مسند امام احمد - حضرت یعلی بن مرہ ثفقی (رض) کی حدیثیں - حدیث نمبر 16891
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا مَا رَآهَا أَحَدٌ قَبْلِي وَلَا يَرَاهَا أَحَدٌ بَعْدِي لَقَدْ خَرَجْتُ مَعَهُ فِي سَفَرٍ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ مَرَرْنَا بِامْرَأَةٍ جَالِسَةٍ مَعَهَا صَبِيٌّ لَهَا فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا صَبِيٌّ أَصَابَهُ بَلَاءٌ وَأَصَابَنَا مِنْهُ بَلَاءٌ يُؤْخَذُ فِي الْيَوْمِ مَا أَدْرِي كَمْ مَرَّةً قَالَ نَاوِلِينِيهِ فَرَفَعَتْهُ إِلَيْهِ فَجَعَلتْهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ وَاسِطَةِ الرَّحْلِ ثُمَّ فَغَرَ فَاهُ فَنَفَثَ فِيهِ ثَلَاثًا وَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ اخْسَأْ عَدُوَّ اللَّهِ ثُمَّ نَاوَلَهَا إِيَّاهُ فَقَالَ الْقَيْنَا فِي الرَّجْعَةِ فِي هَذَا الْمَكَانِ فَأَخْبِرِينَا مَا فَعَلَ قَالَ فَذَهَبْنَا وَرَجَعْنَا فَوَجَدْنَاهَا فِي ذَلِكَ الْمَكَانِ مَعَهَا شِيَاهٌ ثَلَاثٌ فَقَالَ مَا فَعَلَ صَبِيُّكِ فَقَالَتْ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا حَسَسْنَا مِنْهُ شَيْئًا حَتَّى السَّاعَةِ فَاجْتَرِرْ هَذِهِ الْغَنَمَ قَالَ انْزِلْ فَخُذْ مِنْهَا وَاحِدَةً وَرُدَّ الْبَقِيَّةَ قَالَ وَخَرَجْتُ ذَاتَ يَوْمٍ إِلَى الْجَبَّانَةِ حَتَّى إِذَا بَرَزْنَا قَالَ انْظُرْ وَيْحَكَ هَلْ تَرَى مِنْ شَيْءٍ يُوَارِينِي قُلْتُ مَا أَرَى شَيْئًا يُوَارِيكَ إِلَّا شَجَرَةً مَا أُرَاهَا تُوَارِيكَ قَالَ فَمَا بِقُرْبِهَا قُلْتُ شَجَرَةٌ مِثْلُهَا أَوْ قَرِيبٌ مِنْهَا قَالَ فَاذْهَبْ إِلَيْهِمَا فَقُلْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمَا أَنْ تَجْتَمِعَا بِإِذْنِ اللَّهِ قَالَ فَاجْتَمَعَتَا فَبَرَزَ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ اذْهَبْ إِلَيْهِمَا فَقُلْ لَهُمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمَا أَنْ تَرْجِعَ كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْكُمَا إِلَى مَكَانِهَا فَرَجَعَتْ قَالَ وَكُنْتُ عِنْدَهُ جَالِسًا ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ جَاءَهُ جَمَلٌ يُخَبِّبُ حَتَّى صَوَّبَ بِجِرَانِهِ بَيْنَ يَدَيْهِ ثُمَّ ذَرَفَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ وَيْحَكَ انْظُرْ لِمَنْ هَذَا الْجَمَلُ إِنَّ لَهُ لَشَأْنًا قَالَ فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ صَاحِبَهُ فَوَجَدْتُهُ لِرَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَدَعَوْتُهُ إِلَيْهِ فَقَالَ مَا شَأْنُ جَمَلِكَ هَذَا فَقَالَ وَمَا شَأْنُهُ قَالَ لَا أَدْرِي وَاللَّهِ مَا شَأْنُهُ عَمِلْنَا عَلَيْهِ وَنَضَحْنَا عَلَيْهِ حَتَّى عَجَزَ عَنْ السِّقَايَةِ فَأْتَمَرْنَا الْبَارِحَةَ أَنْ نَنْحَرَهُ وَنُقَسِّمَ لَحْمَهُ قَالَ فَلَا تَفْعَلْ هَبْهُ لِي أَوْ بِعْنِيهِ فَقَالَ بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَوَسَمَهُ بِسِمَةِ الصَّدَقَةِ ثُمَّ بَعَثَ بِهِ
حضرت یعلی بن مرہ ثفقی ؓ کی حدیثیں
حضرت یعلی بن مروہ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کے تین ایسے معجزے دیکھے ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نے نہیں دیکھے اور نہ بعد میں کوئی دیکھ سکے گا، چناچہ ایک مرتبہ میں نبی ﷺ کے ساتھ کسی سفر پر نکلا، دوران سفر ہمارا گذر ایک عورت کے پاس سے ہوا جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، وہ کہنے لگی یا رسول اللہ! ﷺ اس بچے کو کوئی تکلیف ہے جس کی وجہ سے ہم پریشان ہوتے رہتے ہیں، دن میں نجانے کتنی مرتبہ اس پر اثر ہوتا ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا اسے مجھے پکڑا دو، اس نے پکڑا دیا، نبی ﷺ نے اس بچے کو اپنے اور کجاوے کے درمیان بٹھا لیا، پھر اس کا منہ کھول کر اس میں تین مرتبہ اپنا لعاب دہن ڈالا اور فرمایا بسم اللہ! میں اللہ کا بندہ ہوں، اے دشمن خدا! دور ہو، یہ کہہ کر وہ بچہ اس کی ماں کے حوالے کیا اور فرمایا جب ہم اس جگہ سے واپس گذریں تو ہمارے پاس اسے دوبارہ لانا اور بتانا کہ اب اس کی حالت کیسے رہی؟ پھر ہم آگے چل پڑے، واپسی پر جب ہم دوبارہ وہاں پہنچے تو ہمیں اس جگہ پر اس عورت کے ساتھ تین بکریاں بھی نظر آئیں، نبی ﷺ نے پوچھا کہ تمہارا بچہ کیسا رہا؟ اس نے جواب دیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اب تک ہمیں اس کی بیماری محسوس نہیں ہوئی ہے ( اور یہ صحیح ہے) یہ بکریاں آپ لے جائیں، نبی ﷺ نے فرمایا نیچے اتر کر اس میں سے صرف ایک بکری لے لو اور باقی اسے واپس لوٹا دو۔ اسی طرح ایک دن میں نبی ﷺ کے ساتھ صحراء کی طرف نکلا، وہاں پہنچ کر نبی ﷺ نے فرمایا ارے بھئی! دیکھو، تمہیں کوئی جگہ نہیں دکھائی دے رہی اور بظاہر یہ درخت بھی آڑ نہیں بن سکتا، نبی ﷺ نے پوچھا اس کے قریب کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اسی جیسا یا اس کے قریب قریب ہی ایک اور درخت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا تم ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ کے اذن سے اکٹھے ہوجاؤ، چناچہ وہ دونوں اکٹھے ہوگئے اور نبی ﷺ نے قضاء حاجت فرمائی، پھر واپس آکر فرمایا ان سے جا کر کہہ دو کہ نبی ﷺ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اپنی اپنی جگہ چلے جاؤ، چناچہ ایسا ہی ہوا۔ اسی طرح ایک دن میں نبی ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اونٹ دوڑتا ہوا آیا اور نبی ﷺ کے سامنے آکر اپنی گردن ڈال دی اور پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، نبی ﷺ نے فرمایا ارے بھئی! دیکھو، یہ اونٹ کس کا ہے؟ اس کا معاملہ عجیب محسوس ہوتا ہے، چناچہ میں اس کے مالک کی تلاش میں نکلا، مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک انصاری آدمی کا ہے، میں نے اسے بلایا اور نبی ﷺ کی خدمت میں پہنچا، نبی ﷺ نے اس سے پوچھا کہ اس اونٹ کا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا کہ واللہ مجھے اور تو کچھ معلوم نہیں، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ہم اس پر کام کرتے تھے اور اس پر پانی لاد کر لاتے تھے، لیکن اب یہ پانی لانے سے عاجز آگیا تھا، اس لئے ہم نے آج رات یہ مشورہ کیا کہ اسے ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کردیتے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا ایسا مت کرو، یہ ہدیۃ مجھے دے دو، یا قیمۃ دے دو، اس نے کہا یا رسول اللہ! ﷺ یہ آپ کا ہوا، نبی ﷺ نے اس پر صدقہ کی علامت لگائی اور اسے ان کے ساتھ بھیج دیا۔
Top