مسند امام احمد - حضرت عمروبن عبسۃ (رض) کی حدیثیں - حدیث نمبر 16407
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِيُّ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ يَعْنِي ابْنَ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الدِّمَشْقِيُّ وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ أَبُو أُمَامَةَ يَا عَمْرُو بْنَ عَبَسَةَ صَاحِبَ الْعَقْلِ عَقْلِ الصَّدَقَةِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ بِأَيِّ شَيْءٍ تَدَّعِي أَنَّكَ رُبُعُ الْإِسْلَامِ قَالَ إِنِّي كُنْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَرَى النَّاسَ عَلَى ضَلَالَةٍ وَلَا أَرَى الْأَوْثَانَ شَيْئًا ثُمَّ سَمِعْتُ عَنْ رَجُلٍ يُخْبِرُ أَخْبَارَ مَكَّةَ وَيُحَدِّثُ أَحَادِيثَ فَرَكِبْتُ رَاحِلَتِي حَتَّى قَدِمْتُ مَكَّةَ فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَخْفٍ وَإِذَا قَوْمُهُ عَلَيْهِ جُرَآءُ فَتَلَطَّفْتُ لَهُ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ فَقُلْتُ مَا أَنْتَ قَالَ أَنَا نَبِيُّ اللَّهِ فَقُلْتُ وَمَا نَبِيُّ اللَّهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ قُلْتُ آللَّهُ أَرْسَلَكَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ بِأَيِّ شَيْءٍ أَرْسَلَكَ قَالَ بِأَنْ يُوَحَّدَ اللَّهُ وَلَا يُشْرَكَ بِهِ شَيْءٌ وَكَسْرِ الْأَوْثَانِ وَصِلَةِ الرَّحِمِ فَقُلْتُ لَهُ مَنْ مَعَكَ عَلَى هَذَا قَالَ حُرٌّ وَعَبْدٌ أَوْ عَبْدٌ وَحُرٌّ وَإِذَا مَعَهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي قُحَافَةَ وَبِلَالٌ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ قُلْتُ إِنِّي مُتَّبِعُكَ قَالَ إِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ يَوْمَكَ هَذَا وَلَكِنْ ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ فَإِذَا سَمِعْتَ بِي قَدْ ظَهَرْتُ فَالْحَقْ بِي قَالَ فَرَجَعْتُ إِلَى أَهْلِي وَقَدْ أَسْلَمْتُ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهَاجِرًا إِلَى الْمَدِينَةِ فَجَعَلْتُ أَتَخَبَّرُ الْأَخْبَارَ حَتَّى جَاءَ رَكَبَةٌ مِنْ يَثْرِبَ فَقُلْتُ مَا هَذَا الْمَكِّيُّ الَّذِي أَتَاكُمْ قَالُوا أَرَادَ قَوْمُهُ قَتْلَهُ فَلَمْ يَسْتَطِيعُوا ذَلِكَ وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهُ وَتَرَكْنَا النَّاسَ سِرَاعًا قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ فَرَكِبْتُ رَاحِلَتِي حَتَّى قَدِمْتُ عَلَيْهِ الْمَدِينَةَ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَعْرِفُنِي قَالَ نَعَمْ أَلَسْتَ أَنْتَ الَّذِي أَتَيْتَنِي بِمَكَّةَ قَالَ قُلْتُ بَلَى فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِّمْنِي مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ وَأَجْهَلُ قَالَ إِذَا صَلَّيْتَ الصُّبْحَ فَأَقْصِرْ عَنْ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَإِذَا طَلَعَتْ فَلَا تُصَلِّ حَتَّى تَرْتَفِعَ فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ فَإِذَا ارْتَفَعَتْ قِيدَ رُمْحٍ أَوْ رُمْحَيْنِ فَصَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى يَسْتَقِلَّ الرُّمْحُ بِالظِّلِّ ثُمَّ أَقْصِرْ عَنْ الصَّلَاةِ فَإِنَّهَا حِينَئِذٍ تُسْجَرُ جَهَنَّمُ فَإِذَا فَاءَ الْفَيْءُ فَصَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ فَإِذَا صَلَّيْتَ الْعَصْرَ فَأَقْصِرْ عَنْ الصَّلَاةِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَإِنَّهَا تَغْرُبُ حِينَ تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَخْبِرْنِي عَنْ الْوُضُوءِ قَالَ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ يَقْرَبُ وَضُوءَهُ ثُمَّ يَتَمَضْمَضُ وَيَسْتَنْشِقُ وَيَنْتَثِرُ إِلَّا خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ فَمِهِ وَخَيَاشِيمِهِ مَعَ الْمَاءِ حِينَ يَنْتَثِرُ ثُمَّ يَغْسِلُ وَجْهَهُ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى إِلَّا خَرَجَتْ خَطَايَا وَجْهِهِ مِنْ أَطْرَافِ لِحْيَتِهِ مِنْ الْمَاءِ ثُمَّ يَغْسِلُ يَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ إِلَّا خَرَجَتْ خَطَايَا يَدَيْهِ مِنْ أَطْرَافِ أَنَامِلِهِ ثُمَّ يَمْسَحُ رَأْسَهُ إِلَّا خَرَجَتْ خَطَايَا رَأْسِهِ مِنْ أَطْرَافِ شَعَرِهِ مَعَ الْمَاءِ ثُمَّ يَغْسِلُ قَدَمَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا خَرَجَتْ خَطَايَا قَدَمَيْهِ مِنْ أَطْرَافِ أَصَابِعِهِ مَعَ الْمَاءِ ثُمَّ يَقُومُ فَيَحْمَدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَيُثْنِي عَلَيْهِ بِالَّذِي هُوَ لَهُ أَهْلٌ ثُمَّ يَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذَنْبِهِ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ قَالَ أَبُو أُمَامَةَ يَا عَمْرُو بْنَ عَبَسَةَ انْظُرْ مَا تَقُولُ أَسَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُعْطَى هَذَا الرَّجُلُ كُلَّهُ فِي مَقَامِهِ قَالَ فَقَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ يَا أَبَا أُمَامَةَ لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي وَرَقَّ عَظْمِي وَاقْتَرَبَ أَجَلِي وَمَا بِي مِنْ حَاجَةٍ أَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَلَى رَسُولِهِ لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا لَقَدْ سَمِعْتُهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ
حضرت عمروبن عبسۃ ؓ کی حدیثیں
حضرت ابوامامہ ؓ نے ایک دن پوچھا کہ اے عمرو بن عبسہ! آپ کیسے یہ دعوی کرتے ہیں کہ آپ ربع اسلام ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں، میں خیال کرتا تھا کہ لوگ گمراہی میں مبتلا ہیں اور وہ کسی راستے پر نہیں ہیں اور وہ سب لوگ بتوں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں، میں نے ایک آدمی کے بارے میں سنا کہ وہ مکہ میں بہت سی خبریں بیان کرتا ہے تو میں اپنی سواری پر بیٹھا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوا (تودیکھا) یہ تو رسول اللہ ﷺ ہیں اور آپ چھپ کر رہ رہے ہیں کیونکہ آپ کی قوم آپ پر مسلط تھی پھر میں نے ایک طریقہ اختیار کیا جس کے مطابق میں مکہ میں آپ تک پہنچ گیا اور آپ سے میں نے عرض کیا آپ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا میں نبی ہوں، میں نے عرض کیا نبی کسے کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے (اپنا پیغام دے کر) بھیجا ہے، میں نے عرض کیا کہ آپ کو کس چیز کا پیغام دے کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ صلہ رحمی کرنا اور بتوں کو توڑنا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا، میں نے عرض کیا کہ اس مسئلہ میں آپ کے ساتھ اور کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ایک آزاد اور ایک غلام، راوی نے کہا کہ اس وقت آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت بلال ؓ تھے جو آپ پر ایمان لائے تھے، میں نے عرض کیا کہ میں بھی آپ کی پیروی کرتا ہوں، آپ نے فرمایا کہ اس وقت تم اس کی طاقت نہیں رکھتے، اس وقت تم اپنے گھر جاؤ، پھر جب سنو کہ میں ظاہر (غالب) ہوگیا ہوں تو پھر میرے پاس آنا، چناچہ میں اپنے گھر کی طرف چلا گیا اور رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ میں آگئے تو میں اپنے گھر والوں میں ہی تھا اور لوگوں سے خبریں لیتا رہتا تھا اور پوچھتا رہتا تھا یہاں تک کہ مدینہ منورہ والوں سے میری طرف کچھ آدمی آئے تو میں نے ان سے کہا کہ اس طرح کے جو آدمی مدینہ منورہ میں آئے ہیں وہ کیسے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ لوگ ان کی طرف دوڑ رہے ہیں (اسلام قبول کر رہے ہیں) ان کی قوم کے لوگ انہیں قتل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ میں مدینہ منورہ میں آیا اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں! تم تو وہی ہو جس نے مجھ سے مکہ میں ملاقات کی تھی، میں نے عرض کیا جی ہاں، پھر عرض کیا اے اللہ کے نبی! اللہ نے آپ کو جو کچھ سکھایا ہے مجھے اس کی خبر دیجئے اور میں اس سے جاہل ہوں، مجھے نماز کے بارے میں بھی خبر دیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا صبح کی نماز پڑھو پھر نماز سے رکے رہو یہاں تک کہ سورج نکل آئے اور نکل کر بلند ہوجائے کیونکہ جب سورج نکلتا ہے تو شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے اور اس وقت کافر لوگ اسے سجدہ کرتے ہیں، پھر نماز پڑھو کیونکہ اس وقت کی نماز کی گواہی فرشتے دیں گے اور حاضر ہوں گے یہاں تک کہ سایہ نیزے کے برابر ہوجائے، پھر نماز سے رکے رہو، کیونکہ اس وقت جہنم دہکائی جاتی ہے پھر جب سایہ آجائے تو نماز پڑھو کیونکہ اس وقت کی نماز کی فرشتے گواہی دیں گے اور حاضر کئے جائیں گے یہاں تک کہ تم عصر کی نماز پڑھ لو پھر سورج کے غروب ہونے تک نماز سے رکے رہو کیونکہ یہ شیطان کے سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت کافر لوگ اسے سجدہ کرتے ہیں۔ میں نے پھر عرض کیا: وضو کے بارے میں بھی کچھ بتائیے؟ آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی آدمی بھی ایسا نہیں جو وضو کے پانی سے کلی کرے اور ناک میں پانی ڈالے اور ناک صاف کرے مگر یہ کہ اس کے منہ اور نتھنوں کے سارے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ پھر جب وہ منہ دھوتا ہے جس طرح اللہ نے اسے حکم دیا ہے تو اس کے چہرے کے گناہ اس کی داڑھی کے کناروں کے ساتھ لگ کر پانی کے ساتھ گرجاتے ہیں پھر اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے اور اللہ کی حمدوثناء اور اس کی بزرگی اس کے شایان شان بیان کرے اور اپنے دل کو خالص اللہ کے لئے فارغ کرلے تو وہ آدمی اپنے گناہوں سے اس طرح پاک وصاف ہوجاتا ہے جس طرح کہ آج ہی اس کی ماں نے اسے جنا ہے، حضرت ابو امامہ ؓ نے فرمایا کہ اے عمرو بن عبسہ ؓ دیکھو! (غور کرو) کیا کہہ رہے ایک ہی جگہ میں آدمی کو اتنا ثواب مل سکتا ہے؟ تو حضرت عمرو بن عبسہ ؓ کہنے لگے، اے ابو امامہ! میں بڑی عمر والا (بوڑھا) ہوگیا اور میری ہڈیاں نرم ہوگئی ہیں اور میری موت (بظاہر) قریب آگئی ہے تو اب مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر جھوٹ باندھوں۔ اگر میں اس حدیث کو رسول اللہ ﷺ سے ایک مرتبہ یا دو مرتہ یا تین مرتبہ سنتا تو میں کبھی بھی اس حدیث کو بیان نہ کرتا لیکن میں نے تو اس حدیث کو سات مرتبہ سے بہی بہت زیادہ مرتبہ سنا ہے۔
Top