مسند امام احمد - حضرت انس بن مالک (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 13553
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ مَاتَ لَهُ ابْنٌ فَقَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ لَا تُخْبِرُوا أَبَا طَلْحَةَ حَتَّى أَكُونَ أَنَا الَّذِي أُخْبِرُهُ فَسَجَّتْ عَلَيْهِ فَلَمَّا جَاءَ أَبُو طَلْحَةَ وَضَعَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ طَعَامًا فَأَكَلَ ثُمَّ تَطَيَّبَتْ لَهُ فَأَصَابَ مِنْهَا فَعَلِقَتْ بِغُلَامٍ فَقَالَتْ يَا أَبَا طَلْحَةَ إِنَّ آلَ فُلَانٍ اسْتَعَارُوا مِنْ آلِ فُلَانٍ عَارِيَةً فَبَعَثُوا إِلَيْهِمْ ابْعَثُوا إِلَيْنَا بِعَارِيَتِنَا فَأَبَوْا أَنْ يَرُدُّوهَا فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ لَيْسَ لَهُمْ ذَلِكَ إِنَّ الْعَارِيَةَ مُؤَدَّاةٌ إِلَى أَهْلِهَا قَالَتْ فَإِنَّ ابْنَكَ كَانَ عَارِيَةً مِنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ قَبَضَهُ فَاسْتَرْجَعَ قَالَ أَنَسٌ فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ فَقَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَهُمَا فِي لَيْلَتِهِمَا قَالَ فَعَلِقَتْ بِغُلَامٍ فَوَلَدَتْ فَأَرْسَلَتْ بِهِ مَعِي أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَمَلْتُ تَمْرًا فَأَتَيْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ عَبَاءَةٌ وَهُوَ يَهْنَأُ بَعِيرًا لَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ مَعَكَ تَمْرٌ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ فَأَخَذَ التَّمَرَاتِ فَأَلْقَاهُنَّ فِي فِيهِ فَلَاكَهُنَّ ثُمَّ جَمَعَ لُعَابَهُ ثُمَّ فَغَرَ فَاهُ فَأَوْجَرَهُ إِيَّاهُ فَجَعَلَ الصَّبِيُّ يَتَلَمَّظُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُبُّ الْأَنْصَارَ التَّمْرَ فَحَنَّكَهُ وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ فَمَا كَانَ فِي الْأَنْصَارِ شَابٌّ أَفْضَلَ مِنْهُ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ مِسْكِينٍ فَذَكَرَهُ
حضرت انس بن مالک ؓ کی مرویات
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابوطلحہ ؓ کا ایک بیٹا بیمار تھا، وہ فوت ہوگیا، ان کی زوجہ حضرت ام سلیم ؓ نے گھر والوں سے کہہ دیا کہ تم میں سے کوئی بھی ابوطلحہ کو ان کے بیٹے کی موت کی خبر نہ دے، چناچہ جب حضرت ابوطلحہ ؓ واپس آئے ان کے سامنے رات کا کھانا لا کر رکھا انہوں نے کھانا کھایا اور پانی پیا، پھر حضرت ام سلیم ؓ نے خوب اچھی طرح بناؤ سنگھار کیا، حضرت ابوطلحہ ؓ نے ان سے خلوت کی، جب انہوں نے دیکھا کہ وہ اچھی طرح سیراب ہوچکے ہیں تو انہوں نے حضرت ابوطلحہ ؓ سے کہا کہ اے ابوطلحہ! دیکھیں تو سہی فلاں لوگوں نے عاریۃً کوئی چیز لی، اس سے فائدہ اٹھاتے رہے جب ان سے واپسی کا مطالبہ ہو، کیا وہ انکار کرسکتے ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں، انہوں نے کہا کہ پھر اپنے بیٹے پر صبر کیجئے۔ صبح ہوئی تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ ذکر کیا، نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تم دونوں میاں بیوی کے لئے اس رات کو مبارک فرمائے، چناچہ وہ امید سے ہوگئیں اور بالآخر ان کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، انہوں نے مجھ سے کہا کہ انس! تم پہلے اسے نبی ﷺ کے پاس لے جاؤ، چناچہ صبح کو میں اس بچے کو اٹھا کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ اپنے اونٹوں کو قطران مل رہے ہیں، نبی ﷺ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا شاید ام سلیم کے یہاں بچہ پیدا ہوا ہے، میں نے عرض کیا جی ہاں! اور اس بچے کو نبی ﷺ کی گود میں رکھ دیا، نبی ﷺ نے عجوہ کھجوریں منگوائیں، ایک کھجور لے کر اسے منہ میں چبا کر نرم کیا اور تھوک جمع کر کے اس کے منہ میں ٹپکا دیا جسے وہ چاٹنے لگا، نبی ﷺ نے فرمایا کھجور انصار کی محبوب چیز ہے اور اس کا نام عبداللہ رکھ دیا، انصار میں اس سے افضل کوئی جوان نہ تھا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
Top