حضرت انس بن مالک ؓ کی مرویات
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب بدر کی طرف روانہ ہوگئے تو لوگوں سے مشورہ کیا، اس کے جواب میں حضرت صدیق اکبر ؓ نے ایک مشورہ دیا، پھر دوبارہ مشورہ مانگا تو حضرت عمر ؓ نے ایک مشورہ دیا، یہ دیکھ کر نبی ﷺ خاموش ہوگئے، انصار نے کہا کہ یا رسول اللہ! شاید آپ کی مراد ہم ہیں؟ حضرت مقداد ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر آپ ہمیں حکم دیں تو سمندروں میں گھس پڑیں اور اگر آپ حکم دیں تو ہم برک الغماد تک اونٹوں کے جگر مارتے ہوئے چلے جائیں، لہٰذا یا رسول اللہ! ﷺ معاملہ آپ کے ہاتھ میں ہے، نبی ﷺ اپنے صحابہ ؓ کو تیار کر کے روانہ ہوگئے اور بدر میں پڑاؤ کیا، قریش کے کچھ جاسوس آئے تو ان میں بنو حجاج کا ایک سیاہ فام غلام بھی تھا، صحابہ ؓ نے اسے گرفتار کرلیا اور اس سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے متعلق پوچھا، وہ کہنے لگا کہ ابوسفیان کا تو مجھے علم نہیں ہے البتہ قریش، ابوجہل اور امیہ بن خلف آگئے ہیں، وہ لوگ جب اسے مارتے تو وہ ابوسفیان کے بارے بتانے لگتا اور جب چھوڑتے تو وہ کہتا کہ مجھے ابوسفیان کا کیا پتہ؟ البتہ قریش آگئے ہیں، اس وقت نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔ نماز سے فارغ ہو کر نبی ﷺ نے فرمایا یہ جب تم سے سچ بیان کرتا ہے تو تم اسے مارتے ہو اور جب یہ جھوٹ بولتا ہے تو تم اسے چھوڑ دیتے ہو، پھر نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا انشاء اللہ کل فلاں شخص یہاں گرے گا اور فلاں شخص یہاں، چناچہ آمنا سامنا ہونے پر مشرکین کو اللہ نے شکست سے دو چار کردیا اور واللہ ایک آدمی بھی نبی ﷺ کی بتائی ہوئی جگہ سے نہیں ہلا تھا۔