مسند امام احمد - حضرت انس بن مالک (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 12729
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ قَالَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ أَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ وَهُوَ مُرْدِفٌ أَبَا بَكْرٍ وَأَبُو بَكْرٍ شَيْخٌ يُعْرَفُ وَنَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَابٌّ لَا يُعْرَفُ قَالَ فَيَلْقَى الرَّجُلُ أَبَا بَكْرٍ فَيَقُولُ يَا أَبَا بَكْرٍ مَنْ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْكَ فَيَقُولُ هَذَا الرَّجُلُ يَهْدِينِي إِلَى السَّبِيلِ فَيَحْسِبُ الْحَاسِبُ أَنَّهُ إِنَّمَا يَهْدِيهِ الطَّرِيقَ وَإِنَّمَا يَعْنِي سَبِيلَ الْخَيْرِ فَالْتَفَتَ أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هُوَ بِفَارِسٍ قَدْ لَحِقَهُمْ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَذَا فَارِسٌ قَدْ لَحِقَ بِنَا قَالَ فَالْتَفَتَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اللَّهُمَّ اصْرَعْهُ فَصَرَعَتْهُ فَرَسُهُ ثُمَّ قَامَتْ تُحَمْحِمُ قَالَ ثُمَّ قَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ مُرْنِي بِمَا شِئْتَ قَالَ قِفْ مَكَانَكَ لَا تَتْرُكَنَّ أَحَدًا يَلْحَقُ بِنَا قَالَ فَكَانَ أَوَّلُ النَّهَارِ جَاهِدًا عَلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ آخِرُ النَّهَارِ مَسْلَحَةً لَهُ قَالَ فَنَزَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَانِبَ الْحَرَّةِ ثُمَّ بَعَثَ إِلَى الْأَنْصَارِ فَجَاءُوا نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمُوا عَلَيْهِمَا وَقَالُوا ارْكَبَا آمِنَيْنِ مُطْمَئِنَّيْنِ قَالَ فَرَكِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَحَفُّوا حَوْلَهُمَا بِالسِّلَاحِ قَالَ فَقِيلَ بِالْمَدِينَةِ جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ فَاسْتَشْرَفُوا نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ وَيَقُولُونَ جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ فَأَقْبَلَ يَسِيرُ حَتَّى جَاءَ إِلَى جَانِبِ دَارِ أَبِي أَيُّوبَ قَالُوا فَإِنَّهُ لَيُحَدِّثُ أَهْلَهَا إِذْ سَمِعَ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ وَهُوَ فِي نَخْلٍ لِأَهْلِهِ يَخْتَرِفُ لَهُمْ مِنْهُ فَعَجِلَ أَنْ يَضَعَ الَّذِي يَخْتَرِفُ فِيهَا فَجَاءَ وَهِيَ مَعَهُ فَسَمِعَ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ بُيُوتِ أَهْلِنَا أَقْرَبُ قَالَ فَقَالَ أَبُو أَيُّوبَ أَنَا يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَذِهِ دَارِي وَهَذَا بَابِي قَالَ فَانْطَلِقْ فَهَيِّئْ لَنَا مَقِيلًا قَالَ فَذَهَبَ فَهَيَّأَ لَهُمَا مَقِيلًا ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَدْ هَيَّأْتُ لَكُمَا مَقِيلًا فَقُومَا عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ فَقِيلَا فَلَمَّا جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا وَأَنَّكَ جِئْتَ بِحَقٍّ وَلَقَدْ عَلِمَتْ الْيَهُودُ أَنِّي سَيِّدُهُمْ وَابْنُ سَيِّدِهِمْ وَأَعْلَمُهُمْ وَابْنُ أَعْلَمِهِمْ فَادْعُهُمْ فَاسْأَلْهُمْ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ وَيْلَكُمْ اتَّقُوا اللَّهَ فَوَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ إِنَّكُمْ لَتَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا وَأَنِّي جِئْتُكُمْ بِحَقٍّ أَسْلِمُوا قَالُوا مَا نَعْلَمُهُ ثَلَاثًا
حضرت انس بن مالک ؓ کی مرویات
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو اپنے پیچھے بٹھائے ہوئے تھے، حضرت صدیق اکبر ؓ بوڑھے اور جانے پہچانے تھے، جب کہ نبی ﷺ جوان اور غیر معروف تھے، اس لئے راستے میں اگر کوئی آدمی ملتا اور یہ پوچھتا کہ ابوبکر! آپ کے آگے یہ کون صاحب ہیں؟ تو وہ جواب دیتے کہ یہ مجھے راستہ دکھا رہے ہیں، سمجھنے والا یہ سمجھتا کہ نبی ﷺ انہیں راستہ دکھا رہے ہیں اور حضرت صدیق اکبر ؓ اس سے خیر کا راستہ مراد لے رہے تھے۔ ایک مرتبہ راستہ میں حضرت صدیق اکبر ؓ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک شہسوار ان کے انتہائی قریب پہنچ چکا تھا، وہ نبی ﷺ سے کہنے لگے اے اللہ کے نبی! یہ سوار تو ہم تک پہنچ چکا ہے، نبی ﷺ نے اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا اے اللہ! اسے گرا دے، اسی لمحے اس کے گھوڑے نے اسے اپنی پشت سے گرا دیا اور ہنہناتا ہوا کھڑا ہوگیا، وہ شہسوار کہنے لگا کہ اے اللہ کے نبی! مجھے کوئی حکم دیجئے، نبی ﷺ نے فرمایا اپنی جگہ پر ہی جا کر رکو اور کسی کو ہمارے پاس پہنچنے نہ دو، دن کے ابتدائی حصے میں وہ شخص نبی ﷺ کے خلاف کوششیں کر رہا تھا، اس طرح دن کے آخری حصے میں وہی نبی ﷺ کا ہتھیار بن گیا۔ اس طرح سفر کرتے کرتے نبی ﷺ نے پتھریلے علاقے کی جانب پہنچ کر پڑاؤ کیا اور انصار کو بلا بھیجا، وہ لوگ آئے اور دونوں حضرات کو سلام کیا اور کہنے لگے کہ امن و اطمینان کے ساتھ سوار ہو کر تشریف لے آئیے، چناچہ نبی ﷺ اور حضرت صدیق اکبر ؓ سوار ہوئے اور انصار نے ان دونوں کے گرد مسلح سپاہیوں سے حفاظتی حصار کرلیا، ادھر مدینہ منورہ میں اعلان ہوگیا کہ نبی ﷺ تشریف لے آئے ہیں، چناچہ لوگ جھانک جھانک کر نبی ﷺ کو دیکھنے اور اللہ کے نبی آگئے، کے نعرے لگانے لگے، نبی ﷺ چلتے چلتے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے گھر کے پاس پہنچ کر اتر گئے۔ نبی ﷺ اہل خانہ سے باتیں کر ہی رہے تھے کہ عبداللہ بن سلام کو یہ خبر سننے کو ملی، اس وقت وہ اپنے کھجور کے باغ میں اپنے اہل خانہ کے لئے کھجوریں کاٹ رہے تھے، انہوں نے جلدی جلدی کھجوریں کاٹیں اور اپنے ساتھ ہی لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے، نبی ﷺ کی باتیں سنیں اور واپس گھر چلے گئے، ادھر نبی ﷺ نے لوگوں سے پوچھا کہ ہمارے رشتہ داروں میں سب سے زیادہ قریب کس کا گھر ہے؟ حضرت ابو ایوب ؓ نے اپنے آپ کو پیش کیا اور عرض کیا کہ یہ میرا مکان ہے اور یہ میرا دروازہ ہے، نبی ﷺ نے فرمایا کہ پھر جا کر ہمارے لئے آرام کرنے کا انتظام کرو، حضرت ابو ایوب ؓ نے جا کر انتظام کیا اور واپس آکر کہنے لگے کہ اے اللہ کے نبی! آرام کا انتظام ہوگیا ہے، آپ دونوں چل کر " اللہ کی برکت پر " آرام کیجئے۔ جب نبی ﷺ تشریف لائے تو ان کی خدمت میں عبداللہ بن سلام بھی حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور حق لے کر آئے ہیں، یہودی جانتے ہیں کہ میں ان کا سردار ابن سردار اور عالم بن عالم ہوں، آپ انہیں بلا کر ان سے پوچھئے، چناچہ وہ آئے اور نبی ﷺ نے ان سے فرمایا اے گروہ یہود! اللہ سے ڈرو، اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، تم جانتے ہو کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں اور میں تمہارے پاس حق لے کر آیا ہوں، اس لئے تم اسلام قبول کرلو، انہوں نے کہا کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔
Top