مسند امام احمد - حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 15919
قَالَ حَدَّثَنِي مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ قَالَ خَرَجْتُ مِنْ الْمَدِينَةِ ذَاهِبًا نَحْوَ الْغَابَةِ حَتَّى إِذَا كُنْتُ بِثَنِيَّةِ الْغَابَةِ لَقِيَنِي غُلَامٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ قُلْتُ وَيْحَكَ مَا لَكَ قَالَ أُخِذَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قُلْتُ مَنْ أَخَذَهَا قَالَ غَطَفَانُ وفَزَارَةُ قَالَ فَصَرَخْتُ ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ أَسْمَعَتْ مَنْ بَيْنَ لَابَتَيْهَا يَا صَبَاحَاهْ يَا صَبَاحَاهْ ثُمَّ انْدَفَعْتُ حَتَّى أَلْقَاهُمْ وَقَدْ أَخَذُوهَا قَالَ فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ وَأَقُولُ أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمٌ أَقْرَعُ قَالَ فَاسْتَنْقَذْتُهَا مِنْهُمْ قَبْلَ أَنْ يَشْرَبُوا فَأَقْبَلْتُ بِهَا أَسُوقُهَا فَلَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْقَوْمَ عِطَاشٌ وَإِنِّي أَعْجَلْتُهُمْ قَبْلَ أَنْ يَشْرَبُوا فَاذْهَبْ فِي أَثَرِهِمْ فَقَالَ يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ إِنَّ الْقَوْمَ يُقْرَوْنَ فِي قَوْمِهِمْ
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں " غابہ " جانے کے لئے مدینہ منورہ سے نکلا، جب میں اس کی چوٹی پر پہنچا تو مجھے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کا ایک غلام ملا، میں نے اس سے پوچھا ارے کیا بات ہے؟ (کیوں گھبرائے ہوئے ہو؟ ) اس نے کہا نبی ﷺ کی اونٹنیاں چھین لی گئی ہیں، میں نے پوچھا کہ کس نے چھینی ہیں؟ اس نے بتایا کہ ابوغطفان اور بنو فزارہ نے، اس پر میں نے تین مرتبہ اتنی بلند آواز سے " یا صباحاہ " کا نعرہ لگایا کہ مدینہ منورہ کے دونوں کانوں تک میری آواز پہنچ گئی۔ پھر میں وہاں سے ان کے پیچھے روانہ ہوا یہاں تک کہ انہیں جا لیا، انہوں نے واقعتا نبی ﷺ کی اونٹیاں پکڑ لی تھیں، میں ان پر تیروں کی بارش کرنے اور یہ شعر پڑھنے لگا کہ میں ہوں اکوع کا بیٹا، آج کا دشمنوں کو کھٹکھٹانے کا دن ہے، بالآخر میں نے ان سے وہ انٹیاں بازیاب کرا لیں، جبکہ ان لوگوں نے ابھی تک پانی بھی نہیں پیا تھا۔ پھر انہیں ہانکتا ہوا لے کر واپس روانہ ہوگیا، راستے میں نبی ﷺ سے ملاقات ہوگئی، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ لوگ ابھی پیاسے ہی تھے کہ میں نے ان کے پانی پینے سے قبل تیزی سے انہیں جالیا، اس لئے آپ ان کے پیچھے روانہ ہوجائیے، نبی ﷺ نے فرمایا اے ابن اکوع! تم نے ان پر قابو پالیا (اور اپنی چیز واپس لے لی) اب ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرو، اب اپنی قوم میں ان لوگوں کی مہمان نوازی ہو رہی ہوگی۔
Top