مسند امام احمد - صحیفہ ہمام بن منبہ رحمتہ اللہ علیہ - حدیث نمبر 9086
حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ يَعْنِي ابْنَ بَهْرَامَ قَالَ حَدَّثَنَا شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ بَيْنَمَا رَجُلٌ وَامْرَأَةٌ لَهُ فِي السَّلَفِ الْخَالِي لَا يَقْدِرَانِ عَلَى شَيْءٍ فَجَاءَ الرَّجُلُ مِنْ سَفَرِهِ فَدَخَلَ عَلَى امْرَأَتِهِ جَائِعًا قَدْ أَصَابَتْهُ مَسْغَبَةٌ شَدِيدَةٌ فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ أَعِنْدَكِ شَيْءٌ قَالَتْ نَعَمْ أَبْشِرْ أَتَاكَ رِزْقُ اللَّهِ فَاسْتَحَثَّهَا فَقَالَ وَيْحَكِ ابْتَغِي إِنْ كَانَ عِنْدَكِ شَيْءٌ قَالَتْ نَعَمْ هُنَيَّةً نَرْجُو رَحْمَةَ اللَّهِ حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَيْهِ الطَّوَى قَالَ وَيْحَكِ قُومِي فَابْتَغِي إِنْ كَانَ عِنْدَكِ خُبْزٌ فَأْتِينِي بِهِ فَإِنِّي قَدْ بَلَغْتُ وَجَهِدْتُ فَقَالَتْ نَعَمْ الْآنَ يَنْضَجُ التَّنُّورُ فَلَا تَعْجَلْ فَلَمَّا أَنْ سَكَتَ عَنْهَا سَاعَةً وَتَحَيَّنَتْ أَيْضًا أَنْ يَقُولَ لَهَا قَالَتْ هِيَ مِنْ عِنْدِ نَفْسِهَا لَوْ قُمْتُ فَنَظَرْتُ إِلَى تَنُّورِي فَقَامَتْ فَوَجَدَتْ تَنُّورَهَا مَلْآنَ جُنُوبَ الْغَنَمِ وَرَحْيَيْهَا تَطْحَنَانِ فَقَامَتْ إِلَى الرَّحَى فَنَفَضَتْهَا وَأَخْرَجَتْ مَا فِي تَنُّورِهَا مِنْ جُنُوبِ الْغَنَمِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَوَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ عَنْ قَوْلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ أَخَذَتْ مَا فِي رَحْيَيْهَا وَلَمْ تَنْفُضْهَا لَطَحَنَتْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
صحیفہ ہمام بن منبہ رحمتہ اللہ علیہ
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ پہلے زمانے میں دو میاں بیوی تھے انہیں کسی چیز پر دسترس حاصل نہ تھی، وہ آدمی ایک مرتبہ سفر سے واپس آیا، اسے شدید بھوک لگی ہوئی تھی، وہ اپنی بیوی کے پاس پہنچ کر اس سے کہنے لگا کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ اس نے کہا ہاں! خوش ہوجاؤ کہ اللہ کا رزق تمہارے پاس آیا ہے، اس نے اسے چمکار کر کہا کہ اگر تمہارے پاس کچھ ہے تو جلدی سے لے آؤ، اس نے کہا اچھا، بس تھوڑی دیر ہمیں رحمت الٰہی کی امید ہے لیکن جب انتظار کی گھڑیاں مزید لمبی ہوتی گئیں تو اس نے اپنی بیوی سے کہا کمبخت! جا اگر تیرے پاس کوئی روٹی ہے تو لے آ، بھوک کی وجہ سے میں نڈھال ہوچکا ہوں، اس نے کہا اچھا ابھی تنور لگتا ہے، جلدی نہ کرو۔ جب وہ تھوڑی دیر مزید خاموش رہا اور اس کی بیوی نے دیکھا کہ اب یہ دوبارہ تقاضا کرنے والا ہے تو اس نے اپنے دل میں سوچا کہ مجھے اٹھ کر تنور کو دیکھنا تو چاہئے (شاید اس میں کچھ ہو) چناچہ وہ کھڑی ہوئی تو دیکھا کہ تنور بکری کی رانوں سے بھرا پڑا ہے اور اس کی دونوں چکیوں میں آٹا پس رہا ہے وہ چکی کی طرف بڑھی اور آٹا لے کرچھانا اور تنور میں سے بکری کی رانیں نکالیں ( اور خوب لطف لے کر سیراب ہوئے) حضرت ابوہریرہ ؓ کا ارشادنقل کرتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں ابوالقاسم ﷺ کی جان ہے، اگر وہ چکیوں میں سے آٹا نکال کر انہیں جھاڑ نہ لیتی تو قیامت تک اس میں سے آٹا نکلتا رہتا اور وہ پیستی رہتی۔
Top