مسند امام احمد - حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 6586
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ قَالَ جَلَسَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ إِلَى مَرْوَانَ بِالْمَدِينَةِ فَسَمِعُوهُ وَهُوَ يُحَدِّثُ فِي الْآيَاتِ أَنَّ أَوَّلَهَا خُرُوجُ الدَّجَّالِ قَالَ فَانْصَرَفَ النَّفَرُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فَحَدَّثُوهُ بِالَّذِي سَمِعُوهُ مِنْ مَرْوَانَ فِي الْآيَاتِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ لَمْ يَقُلْ مَرْوَانُ شَيْئًا قَدْ حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مِثْلِ ذَلِكَ حَدِيثًا لَمْ أَنْسَهُ بَعْدُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ أَوَّلَ الْآيَاتِ خُرُوجًا طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ ضُحًى فَأَيَّتُهُمَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا فَالْأُخْرَى عَلَى أَثَرِهَا ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَكَانَ يَقْرَأُ الْكُتُبَ وَأَظُنُّ أُولَاهَا خُرُوجًا طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَذَلِكَ أَنَّهَا كُلَّمَا غَرَبَتْ أَتَتْ تَحْتَ الْعَرْشِ فَسَجَدَتْ وَاسْتَأْذَنَتْ فِي الرُّجُوعِ فَأُذِنَ لَهَا فِي الرُّجُوعِ حَتَّى إِذَا بَدَا لِلَّهِ أَنْ تَطْلُعَ مِنْ مَغْرِبِهَا فَعَلَتْ كَمَا كَانَتْ تَفْعَلُ أَتَتْ تَحْتَ الْعَرْشِ فَسَجَدَتْ فَاسْتَأْذَنَتْ فِي الرُّجُوعِ فَلَمْ يُرَدَّ عَلَيْهَا شَيْءٌ ثُمَّ تَسْتَأْذِنُ فِي الرُّجُوعِ فَلَا يُرَدُّ عَلَيْهَا شَيْءٌ ثُمَّ تَسْتَأْذِنُ فَلَا يُرَدُّ عَلَيْهَا شَيْءٌ حَتَّى إِذَا ذَهَبَ مِنْ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَذْهَبَ وَعَرَفَتْ أَنَّهُ إِنْ أُذِنَ لَهَا فِي الرُّجُوعِ لَمْ تُدْرِكْ الْمَشْرِقَ قَالَتْ رَبِّ مَا أَبْعَدَ الْمَشْرِقَ مَنْ لِي بِالنَّاسِ حَتَّى إِذَا صَارَ الْأُفُقُ كَأَنَّهُ طَوْقٌ اسْتَأْذَنَتْ فِي الرُّجُوعِ فَيُقَالُ لَهَا مِنْ مَكَانِكِ فَاطْلُعِي فَطَلَعَتْ عَلَى النَّاسِ مِنْ مَغْرِبِهَا ثُمَّ تَلَا عَبْدُ اللَّهِ هَذِهِ الْآيَةَ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی مرویات
ابوزرعہ بن عمرورحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں تین مسلمان مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے اسے علامات قیامت کے حوالے سے یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلی علامت دجال کا خروج ہے وہ لوگ واپسی پر حضرت ابن عمرو ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مروان سے سنی ہوئی حدیث بیان کردی انہوں نے فرمایا اس نے کوئی مضبوط بات نہیں کہی میں نے اس حوالے سے نبی کریم ﷺ کی ایک ایسی حدیث سنی ہے جو میں اب تک نہیں بھولا میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کی سب سے پہلی علامت سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے پھر چاشت کے وقت دابۃ الارض کا خروج ہونا ہے ان دونوں میں سے جو بھی علامت پہلے ظاہر ہوجائے گی دوسری اس کے فورا بعد رونما ہوجائے گی حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ جو کہ گذشتہ آسمانی کتابیں بھی پڑھے ہوئے تھے کہتے تھے کہ میرا خیال ہے کہ سب سے پہلے سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ روزانہ سورج جب غروب ہوجاتا ہے تو عرش الہٰی کے نیچے آ کر سجدہ ریز ہوجاتا ہے پھر واپس جانے کی اجازت مانگتا ہے تو اسے اجازت مل جاتی ہے جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا کہ وہ مغرب سے طلوع ہو تو وہ حسب معمول عرش کے نیچے سجدہ ریز ہو کر جب واپسی کی اجازت مانگے گا تو اسے کوئی جواب نہ دیا جائے گا تین مرتبہ اسی طرح ہوگا جب رات کا اتناحصہ بیت جائے گا جو اللہ کو منظور ہوگا اور سورج کو اندازہ ہوجائے گا کہ اب اگر اسے اجازت مل بھی گئی تو وہ مشرق تک نہیں پہنچ سکے گا کہ پروردگار! مشرق کتنا دور ہے؟ مجھے لوگوں تک کون پہنچائے گا؟ جب افق ایک طوق کی طرح ہوجائے گا تو اسے واپس جانے کی اجازت مل جائے گی اور اس سے کہا جائے گا کہ اسی جگہ سے طلوع کرو چناچہ وہ لوگوں پر مغرب کی جانب سے طلوع ہوگا پھر حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی جس دن آپ کے رب کی کچھ نشانیاں ظاہر ہوگئیں تو اس شخص کو " جو اب تک ایمان نہیں لایا اس وقت ایمان لانا کوئی فائدہ نہ دے سکے گا "
Top