مسند امام احمد - حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 6333
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ وَيُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ لَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِي فَقُلْتُ أَخْبِرْنِي عَنْ صِفَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّوْرَاةِ فَقَالَ أَجَلْ وَاللَّهِ إِنَّهُ لَمَوْصُوفٌ فِي التَّوْرَاةِ بِصِفَتِهِ فِي الْقُرْآنِ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَحِرْزًا لِلْأُمِّيِّينَ وَأَنْتَ عَبْدِي وَرَسُولِي سَمَّيْتُكَ الْمُتَوَكِّلَ لَسْتَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيظٍ وَلَا سَخَّابٍ بِالْأَسْوَاقِ قَالَ يُونُسُ وَلَا صَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَةَ بِالسَّيِّئَةِ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ وَلَنْ يَقْبِضَهُ حَتَّى يُقِيمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوْجَاءَ بِأَنْ يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَيَفْتَحَ بِهَا أَعْيُنًا عُمْيًا وَآذَانًا صُمًّا وَقُلُوبًا غُلْفًا قَالَ عَطَاءٌ لَقِيتُ كَعْبًا فَسَأَلْتُهُ فَمَا اخْتَلَفَا فِي حَرْفٍ إِلَّا أَنَّ كَعْبًا يَقُولُ بِلُغَتِهِ أَعْيُنًا عُمُومَى وَآذَانًا صُمُومَى وَقُلُوبًا غُلُوفَى قَالَ يُونُسُ غُلْفَى
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی مرویات
عطاء بن یسار (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری ملاقات حضرت ابن عمرو ؓ سے ہوئی میں نے ان سے عرض کیا کہ تورات میں نبی کریم ﷺ کی جو صفات بیان گئی ہیں ان کے متعلق مجھے بتائیے انہوں نے فرمایا اچھا واللہ تورات میں ان کی وہی صفات بیان کی گئی ہیں جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں کہ اے نبی ﷺ ہم نے آپ کو گواہ بنا کر خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے " اور امیین کے لئے حفاظت بنا کر مبعوث کیا ہے آپ میرے بندے اور رسول ہیں میں نے آپ کا نام متوکل رکھ دیا ہے آپ تندخو، سخت دل، بازاروں میں شور مچانے والے اور برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے نہیں ہیں بلکہ در گذر اور معاف کردینے والے ہیں اللہ انہیں اس وقت تک اپنے پاس نہیں بلائے گا جب تک ان کے ذریعے ٹیڑھی ملت کو سیدھا نہ کردے گا کہ وہ لاالہ الا اللہ کا اقرار کرنے لگیں، پھر اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اندھی آنکھوں کو، بہرے کانوں کو اور پردوں میں لپٹے دلوں کو کھول دے گا۔ عطاء کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں کعب احبار سے ملا اور ان سے بھی یہی سوال پوچھا تو ان دونوں کے جواب میں ایک حرف کا فرق بھی نہ تھا۔
Top