مسند امام احمد - حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 6188
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمُغِيرَةَ الضَّبِّيِّ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ زَوَّجَنِي أَبِي امْرَأَةً مِنْ قُرَيْشٍ فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيَّ جَعَلْتُ لَا أَنْحَاشُ لَهَا مِمَّا بِي مِنْ الْقُوَّةِ عَلَى الْعِبَادَةِ مِنْ الصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ فَجَاءَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِلَى كَنَّتِهِ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهَا فَقَالَ لَهَا كَيْفَ وَجَدْتِ بَعْلَكِ قَالَتْ خَيْرَ الرِّجَالِ أَوْ كَخَيْرِ الْبُعُولَةِ مِنْ رَجُلٍ لَمْ يُفَتِّشْ لَنَا كَنَفًا وَلَمْ يَعْرِفْ لَنَا فِرَاشًا فَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَعَذَمَنِي وَعَضَّنِي بِلِسَانِهِ فَقَالَ أَنْكَحْتُكَ امْرَأَةً مِنْ قُرَيْشٍ ذَاتَ حَسَبٍ فَعَضَلْتَهَا وَفَعَلْتَ وَفَعَلْتَ ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَكَانِي فَأَرْسَلَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ فَقَالَ لِي أَتَصُومُ النَّهَارَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ وَتَقُومُ اللَّيْلَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَنَامُ وَأَمَسُّ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي قَالَ اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ قُلْتُ إِنِّي أَجِدُنِي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ قَالَ فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ عَشَرَةِ أَيَّامٍ قُلْتُ إِنِّي أَجِدُنِي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ قَالَ أَحَدُهُمَا إِمَّا حُصَيْنٌ وَإِمَّا مُغِيرَةُ قَالَ فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ ثَلَاثٍ قَالَ ثُمَّ قَالَ صُمْ فِي كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ قُلْتُ إِنِّي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ قَالَ فَلَمْ يَزَلْ يَرْفَعُنِي حَتَّى قَالَ صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا فَإِنَّهُ أَفْضَلُ الصِّيَامِ وَهُوَ صِيَامُ أَخِي دَاوُدَ قَالَ حُصَيْنٌ فِي حَدِيثِهِ ثُمَّ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ لِكُلِّ عَابِدٍ شِرَّةً وَلِكُلِّ شِرَّةٍ فَتْرَةً فَإِمَّا إِلَى سُنَّةٍ وَإِمَّا إِلَى بِدْعَةٍ فَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى سُنَّةٍ فَقَدْ اهْتَدَى وَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ فَقَدْ هَلَكَ قَالَ مُجَاهِدٌ فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو حَيْثُ ضَعُفَ وَكَبِرَ يَصُومُ الْأَيَّامَ كَذَلِكَ يَصِلُ بَعْضَهَا إِلَى بَعْضٍ لِيَتَقَوَّى بِذَلِكَ ثُمَّ يُفْطِرُ بِعَدِّ تِلْكَ الْأَيَّامِ قَالَ وَكَانَ يَقْرَأُ فِي كُلِّ حِزْبِهِ كَذَلِكَ يَزِيدُ أَحْيَانًا وَيَنْقُصُ أَحْيَانًا غَيْرَ أَنَّهُ يُوفِي الْعَدَدَ إِمَّا فِي سَبْعٍ وَإِمَّا فِي ثَلَاثٍ قَالَ ثُمَّ كَانَ يَقُولُ بَعْدَ ذَلِكَ لَأَنْ أَكُونَ قَبِلْتُ رُخْصَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا عُدِلَ بِهِ أَوْ عَدَلَ لَكِنِّي فَارَقْتُهُ عَلَى أَمْرٍ أَكْرَهُ أَنْ أُخَالِفَهُ إِلَى غَيْرِهِ
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی مرویات
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے قریش کی ایک خاتون سے میری شادی کردی میں جب اس کے پاس گیا تو عبادات میں مثلاً نماز، روزے کی طاقت اور شوق کی وجہ سے میں نے اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کی، اگلے دن میرے والد حضرت عمرو بن عاص ؓ اپنی بہو کے پاس آئے اور اس سے پوچھنے لگے کہ تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ اس نے جواب دیا بہترین شوہر جس نے میرے سائے کی بھی جستجو نہ کی اور میرا بستر بھی نہ پہنچانا یہ سن کر وہ میرے پاس آئے اور مجھے خوب ملامت کی اور زبان سے کاٹ کھانے کی باتیں کرتے ہوئے کہنے لگے کہ میں نے تیرا نکاح قریش کی ایک اچھے حسب نسب والی خاتون سے کیا اور تو نے اس لاپروائی کی اور یہ کیا اور یہ کیا۔ پھر وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میری شکایت کی نبی کریم ﷺ نے مجھے بلوایا میں حاضر خدمت ہوا نبی کریم ﷺ نے مجھ سے پوچھا کیا تم دن میں روزہ رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں نبی کریم ﷺ نے پوچھا کیا تم رات میں قیام کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں نبی کریم ﷺ نے فرمایا لیکن میں تو روزہ بھی رکھتا ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں کے پاس بھی جاتا ہوں جو شخص میری سنت سے اعراض کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر مہینے میں صرف ایک قرآن پڑھا کرو میں نے عرض کیا کہ میں اپنے اندراس سے زیادہ طاقت محسوس کرتا ہوں نبی کریم ﷺ نے فرمایا پھر تین راتوں میں مکمل کرلیا کرو۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو میں نے عرض کیا میں اپنے اندراس سے زیادہ طاقت محسوس کرتا ہوں نبی کریم ﷺ مجھے مسلسل کچھ چھوٹ دیتے رہے یہاں تک کہ آخر میں فرمایا پھر ایک دن روزہ رکھ لیا کرو اور ایک دن ناغہ کرلیا کرو۔ یہ بہترین روزہ ہے اور یہ میرے بھائی حضرت داؤدعلیہ السلام کا طریقہ رہا ہے پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہر عابد میں ایک تیزی ہوتی ہے اور ہر تیزی کا ایک انقطاع ہوتا ہے یا سنت کی طرف یا بدعت کی طرف جس کا انقطاع سنت کی طرف تو وہ ہدایت پا جاتا ہے اور جس کا انقطاع کسی اور چیز کی طرف ہو تو وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔ مجاہدرحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ بوڑھے اور کمزور ہوگئے تب بھی اسی طرح یہ روزے رکھتے رہے اور بعض اوقات کئی کئی روزے اکٹھے کرلیتے تاکہ ایک سے دوسرے کو تقویت رہے پھر اتنے دنوں کے شمار کے مطابق ناغہ کرلیتے اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت میں بھی بعض اوقات کمی بیشی کرلیتے البتہ سات یا تین کا عددضرور پورا کرتے تھے اور بعد میں کہا کرتے تھے کہ اگر میں نبی کریم ﷺ کی رخصت کو قبول کرلیتا تو اس سے اعراض کرنے سے زیادہ مجھے پسند ہوتا لیکن اب مجھے یہ گوار انہیں ہے کہ نبی کریم ﷺ سے جس حال میں جدائی ہوئی ہو اس کی خلاف ورزی کروں۔
Top