مسند امام احمد - حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 4182
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النِّسَاءَ كُنَّ يَوْمَ أُحُدٍ خَلْفَ الْمُسْلِمِينَ يُجْهِزْنَ عَلَى جَرْحَى الْمُشْرِكِينَ فَلَوْ حَلَفْتُ يَوْمَئِذٍ رَجَوْتُ أَنْ أَبَرَّ إِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنَّا يُرِيدُ الدُّنْيَا حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ فَلَمَّا خَالَفَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَصَوْا مَا أُمِرُوا بِهِ أُفْرِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تِسْعَةٍ سَبْعَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَرَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ وَهُوَ عَاشِرُهُمْ فَلَمَّا رَهِقُوهُ قَالَ رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا رَدَّهُمْ عَنَّا قَالَ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَاتَلَ سَاعَةً حَتَّى قُتِلَ فَلَمَّا رَهِقُوهُ أَيْضًا قَالَ يَرْحَمُ اللَّهُ رَجُلًا رَدَّهُمْ عَنَّا فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُ ذَا حَتَّى قُتِلَ السَّبْعَةُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَاحِبَيْهِ مَا أَنْصَفْنَا أَصْحَابَنَا فَجَاءَ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ اعْلُ هُبَلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُولُوا اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ فَقَالُوا اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ لَنَا عُزَّى وَلَا عُزَّى لَكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُولُوا اللَّهُ مَوْلَانَا وَالْكَافِرُونَ لَا مَوْلَى لَهُمْ ثُمَّ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ يَوْمٌ لَنَا وَيَوْمٌ عَلَيْنَا وَيَوْمٌ نُسَاءُ وَيَوْمٌ نُسَرُّ حَنْظَلَةُ بِحَنْظَلَةَ وَفُلَانٌ بِفُلَانٍ وَفُلَانٌ بِفُلَانٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا سَوَاءً أَمَّا قَتْلَانَا فَأَحْيَاءٌ يُرْزَقُونَ وَقَتْلَاكُمْ فِي النَّارِ يُعَذَّبُونَ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ قَدْ كَانَتْ فِي الْقَوْمِ مُثْلَةٌ وَإِنْ كَانَتْ لَعَنْ غَيْرِ مَلَإٍ مِنَّا مَا أَأَمَرْتُ وَلَا نَهَيْتُ وَلَا أَحْبَبْتُ وَلَا كَرِهْتُ وَلَا سَاءَنِي وَلَا سَرَّنِي قَالَ فَنَظَرُوا فَإِذَا حَمْزَةُ قَدْ بُقِرَ بَطْنُهُ وَأَخَذَتْ هِنْدُ كَبِدَهُ فَلَاكَتْهَا فَلَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَأْكُلَهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَأَكَلَتْ مِنْهُ شَيْئًا قَالُوا لَا قَالَ مَا كَانَ اللَّهُ لِيُدْخِلَ شَيْئًا مِنْ حَمْزَةَ النَّارَ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمْزَةَ فَصَلَّى عَلَيْهِ وَجِيءَ بِرَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَوُضِعَ إِلَى جَنْبِهِ فَصَلَّى عَلَيْهِ فَرُفِعَ الْأَنْصَارِيُّ وَتُرِكَ حَمْزَةُ ثُمَّ جِيءَ بِآخَرَ فَوَضَعَهُ إِلَى جَنْبِ حَمْزَةَ فَصَلَّى عَلَيْهِ ثُمَّ رُفِعَ وَتُرِكَ حَمْزَةُ حَتَّى صَلَّى عَلَيْهِ يَوْمَئِذٍ سَبْعِينَ صَلَاةً
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی مرویات
حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ غزوہ احد کے دن خواتین مسلمانوں کے پیچھے تھیں اور مشرکین کے زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہی تھیں، اگر میں قسم کھا کر کہوں تو میری قسم صحیح ہوگی (اور میں اس میں حانث نہیں ہوں گا) کہ اس دن ہم میں سے کوئی شخص دنیا کا خواہش مند نہ تھا، یہاں تک کہ اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی تم میں سے بعض لوگ دنیا چاہتے ہیں اور بعض لوگ آخرت، پھر اللہ نے تہیں ان سے پھیر دیا تاکہ وہ تمہیں آزمائے۔ جب نبی ﷺ کے صحابہ نے حکم نبوی کی مخالفت نہ کرتے ہوئے اس کی تعمیل نہ کی تو نبی ﷺ صرف نو افراد کے درمیان تنہا رہ گئے جن میں سات انصاری اور دو قریشی تھے، دسویں خود نبی ﷺ تھے، جب مشرکین نے نبی ﷺ پر ہجوم کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا اللہ اس شخص پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے جو انہیں ہم سے دور کرے، یہ سن کر ایک انصاری آگے بڑھا، کچھ دیر قتال کیا اور شہید ہوگیا، اسی طرح ایک ایک کر کے ساتوں انصاری صحابہ ؓ شہید ہوگئے، یہ دیکھ کر نبی ﷺ نے فرمایا ہم نے اپنے ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا۔ تھوڑی دیر بعد ابو سفیان آیا (جنہوں نے اس وقت اسلام قبول نہیں کیا تھا) اور ہبل کی جے کاری کا نعرہ لگانے لگا نبی ﷺ نے فرمایا اسے جواب دو کہ اللہ ہمارا مولیٰ اور کافروں کا کوئی مولیٰ نہیں، پھر ابو سفیان نے کہا کہ آج کا دن جنگ بدر کا بدلہ ہے، ایک دن ہمارا اور ایک دن ہم پر، ایک دن ہمیں تکلیف ہوئی اور ایک ہم خوش ہوئے، حنظلہ حنظلہ کے بدلے، فلاں فلاں کے بدلے اور فلاں فلاں کے بدلے، نبی ﷺ نے فرمایا تم میں اور ہم میں پھر بھی کوئی برابری نہیں، ہمارے مقتولین زندہ ہیں اور رزق پاتے ہیں جبکہ تمہارے مقتولین جہنم کی آگ میں سزا پاتے ہیں۔ پھر ابو سفیان نے کہا کہ کچھ لوگوں کی لاشوں کا مثلہ کیا گیا ہے، یہ ہمارے سرداروں کا کام نہیں ہے، میں نے اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے روکا، میں اسے پسند کرتا ہوں اور نہ ہی ناگواری ظاہر کرتا ہوں، مجھے یہ برا لگا اور نہ ہی خوشی ہوئی، صحابہ کرام ؓ نے جب دیکھا تو حضرت حمزہ ؓ کا پیٹ چاک کردیا گیا تھا اور ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے ان کا جگر نکال کر اسے چبایا تھا لیکن اسے کھا نہیں سکی تھی، نبی ﷺ نے ان کی لاش دیکھ کر پوچھا کیا اس نے اس میں سے کچھ کھایا بھی ہے؟ صحابہ ؓ نے بتایا نہیں، نبی ﷺ نے فرمایا اللہ حمزہ ؓ کے جسم کے کسی حصے کو آگ میں داخل نہیں کرنا چاہتا، پھر نبی ﷺ نے ان کی لاش کو سامنے رکھ کر ان کی نماز جنازہ پڑھائی، پھر ایک انصاری کا جنازہ لایا گیا اور حضرت حمزہ ؓ کے پہلو میں رکھ دیا گیا نبی ﷺ نے ان کی بھی نماز جنازہ پڑھائی، پھر اس کا جنازہ اٹھا لیا گیا اور حضرت حمزہ ؓ کا جنازہ یہیں رہنے دیا گیا، اس طرح اس دن حضرت حمزہ ؓ کی نماز جنازہ ستر مرتبہ ادا کی گئی۔
Top