مسند امام احمد - حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 3599
حَدَّثَنَا عَارِمٌ وَعَفَّانُ قَالَا حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ قَالَ قَالَ أَبِي حَدَّثَنِي أَبُو تَمِيمَةَ عَنْ عَمْرٍو لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ قَدْ قَالَ الْبِكَالِيَّ يُحَدِّثُهُ عَمْرٌو عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ عَمْرٌو إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ قَالَ اسْتَبْعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْتُ مَكَانَ كَذَا وَكَذَا فَخَطَّ لِي خِطَّةً فَقَالَ لِي كُنْ بَيْنَ ظَهْرَيْ هَذِهِ لَا تَخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ إِنْ خَرَجْتَ هَلَكْتَ قَالَ فَكُنْتُ فِيهَا قَالَ فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَذَفَةً أَوْ أَبْعَدَ شَيْئًا أَوْ كَمَا قَالَ ثُمَّ إِنَّهُ ذَكَرَ هَنِينًا كَأَنَّهُمْ الزُّطُّ قَالَ عَفَّانُ أَوْ كَمَا قَالَ عَفَّانُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَيْسَ عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ وَلَا أَرَى سَوْآتِهِمْ طِوَالًا قَلِيلٌ لَحْمُهُمْ قَالَ فَأَتَوْا فَجَعَلُوا يَرْكَبُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَجَعَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ عَلَيْهِمْ قَالَ وَجَعَلُوا يَأْتُونِي فَيُخَيِّلُونَ أَوْ يَمِيلُونَ حَوْلِي وَيَعْتَرِضُونَ لِي قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَأُرْعِبْتُ مِنْهُمْ رُعْبًا شَدِيدًا قَالَ فَجَلَسْتُ أَوْ كَمَا قَالَ قَالَ فَلَمَّا انْشَقَّ عَمُودُ الصُّبْحِ جَعَلُوا يَذْهَبُونَ أَوْ كَمَا قَالَ قَالَ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ ثَقِيلًا وَجِعًا أَوْ يَكَادُ أَنْ يَكُونَ وَجِعًا مِمَّا رَكِبُوهُ قَالَ إِنِّي لَأَجِدُنِي ثَقِيلًا أَوْ كَمَا قَالَ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ فِي حِجْرِي أَوْ كَمَا قَالَ قَالَ ثُمَّ إِنَّ هَنِينًا أَتَوْا عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ بِيضٌ طِوَالٌ أَوْ كَمَا قَالَ وَقَدْ أَغْفَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَأُرْعِبْتُ مِنْهُمْ أَشَدَّ مِمَّا أُرْعِبْتُ الْمَرَّةَ الْأُولَى قَالَ عَارِمٌ فِي حَدِيثِهِ قَالَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ لَقَدْ أُعْطِيَ هَذَا الْعَبْدُ خَيْرًا أَوْ كَمَا قَالُوا إِنَّ عَيْنَيْهِ نَائِمَتَانِ أَوْ قَالَ عَيْنَهُ أَوْ كَمَا قَالُوا وَقَلْبَهُ يَقْظَانُ ثُمَّ قَالَ قَالَ عَارِمٌ وَعَفَّانُ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ هَلُمَّ فَلْنَضْرِبْ لَهُ مَثَلًا أَوْ كَمَا قَالُوا قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ اضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا وَنُؤَوِّلُ نَحْنُ أَوْ نَضْرِبُ نَحْنُ وَتُؤَوِّلُونَ أَنْتُمْ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ مَثَلُهُ كَمَثَلِ سَيِّدٍ ابْتَنَى بُنْيَانًا حَصِينًا ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى النَّاسِ بِطَعَامٍ أَوْ كَمَا قَالَ فَمَنْ لَمْ يَأْتِ طَعَامَهُ أَوْ قَالَ لَمْ يَتْبَعْهُ عَذَّبَهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ كَمَا قَالُوا قَالَ الْآخَرُونَ أَمَّا السَّيِّدُ فَهُوَ رَبُّ الْعَالَمِينَ وَأَمَّا الْبُنْيَانُ فَهُوَ الْإِسْلَامُ وَالطَّعَامُ الْجَنَّةُ وَهُوَ الدَّاعِي فَمَنْ اتَّبَعَهُ كَانَ فِي الْجَنَّةِ قَالَ عَارِمٌ فِي حَدِيثِهِ أَوْ كَمَا قَالُوا وَمَنْ لَمْ يَتَّبِعْهُ عُذِّبَ أَوْ كَمَا قَالَ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَيْقَظَ فَقَالَ مَا رَأَيْتَ يَا ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَأَيْتُ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا خَفِيَ عَلَيَّ مِمَّا قَالُوا شَيْءٌ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمْ نَفَرٌ مِنْ الْمَلَائِكَةِ أَوْ قَالَ هُمْ مِنْ الْمَلَائِكَةِ أَوْ كَمَا شَاءَ اللَّهُ
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی مرویات
حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ مجھے اپنے ساتھ کہیں لے کر گئے، ہم چلتے رہے یہاں تک کہ جب ایک مقام پر پہنچے تو نبی ﷺ نے زمین پر ایک خط کھینچا اور مجھ سے فرمایا کہ اس خط سے پیچھے رہنا، اس سے آگے نہ نکلنا، اگر تم اس سے آگے نکلے تو ہلاک ہوجاؤ گے، چناچہ میں وہیں رہا اور نبی ﷺ آگے بڑھ گئے، آپ ﷺ اتنی دور گئے جہاں تک انسان کی پھینکی ہوئی کنکری جاسکتی ہے یا اس سے کچھ آگے، وہاں کچھ لوگ محسوس ہوئے جو ہندوستان کی ایک قوم " جاٹ " لگتے تھے، انہوں نے کپڑے بھی نہیں پہن رکھے تھے اور مجھے ان کی شرمگاہ بھی نظر نہیں آتی تھی، ان کے قد لمبے اور گوشت بہت تھوڑا تھا وہ آئے اور نبی ﷺ پر سوار ہونے کی کوشش کرنے لگے، نبی ﷺ ان کے سامنے کچھ پڑھتے رہے، وہ میرے پاس بھی آئے اور میرے ارد گرد گھومنے اور مجھے چھیڑنے کی کوشش کرنے لگے جس سے مجھ پر شدید قسم کی دہشت طاری ہوگئی اور میں اپنی جگہ پر ہی بیٹھ گیا۔ جب پو پھوٹی تو وہ لوگ جانا شروع ہوگئے، تھوڑی دیر بعد نبی ﷺ واپس آگئے، اس وقت آپ ﷺ بہت بوجھل محسوس ہو رہے تھے اور آپ ﷺ کے جسم میں درد ہو رہا تھا، اس لئے مجھ سے فرمانے لگے کہ مجھے طبیعت بوجھل لگ رہی ہے، پھر اپنا سر میری گود میں رکھ دیا، اسی اثناء میں کچھ لوگ اور آگئے جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور ان کے قد بھی لمبے لمبے تھے، نبی ﷺ سوچکے تھے اس لئے مجھ پر پہلی مرتبہ سے بھی زیادہ شدید دہشت طاری ہوگئی۔ پھر وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اس بندے کو خیر عطاء کی گئی ہے، اس کی آنکھیں تو سوتی ہیں لیکن دل جاگتا رہتا ہے، آؤ، ہم ان کے لئے کوئی مثال دیتے ہیں، تم مثال بیان کرو، ہم اس کی تاویل بتائیں گے یا ہم مثال بیان کرتے ہیں، تم اس کی تاویل بتانا، چناچہ ان میں سے کچھ لوگ کہنے لگے کہ ان کی مثال اس سردار کی سی ہے جس نے کوئی بڑی مضبوط عمارت بنوائی، پھر لوگوں کو دعوت پر بلایا اور جو شخص دعوت میں شریک نہ ہوا، اس نے اسے بڑی سخت سزا دی، دوسروں نے اس کی تاویل بیان کرتے ہوئے کہا کہ سردار سے مراد تو اللہ رب العالمین ہے، عمارت سے مراد اسلام ہے، کھانے سے مراد جنت ہے اور یہ داعی ہیں، جو ان کی اتباع کرے گا وہ جنت میں جائے گا اور جو ان کی اتباع نہیں کرے گا اسے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ تھوڑی دیر بعد نبی ﷺ بھی بیدار ہوگئے اور فرمانے لگے اے ابن ام عبد! تم نے کیا دیکھا؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے یہ یہ چیز دیکھی ہے، نبی ﷺ نے فرمایا انہوں نے جو کچھ کہا، مجھ پر اس میں سے کچھ بھی پوشیدہ اور مکفی نہیں، یہ فرشتوں کی جماعت تھی۔
Top