مسند امام احمد - حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 3530
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ البُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ آخِرَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ رَجُلٌ يَمْشِي عَلَى الصِّرَاطِ فَيَنْكَبُّ مَرَّةً وَيَمْشِي مَرَّةً وَتَسْفَعُهُ النَّارُ مَرَّةً فَإِذَا جَاوَزَ الصِّرَاطَ الْتَفَتَ إِلَيْهَا فَقَالَ تَبَارَكَ الَّذِي نَجَّانِي مِنْكِ لَقَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ مَا لَمْ يُعْطِ أَحَدًا مِنْ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ قَالَ فَتُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا فَيَقُولُ يَا رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا فَيَقُولُ أَيْ عَبْدِي فَلَعَلِّي إِنْ أَدْنَيْتُكَ مِنْهَا سَأَلْتَنِي غَيْرَهَا فَيَقُولُ لَا يَا رَبِّ وَيُعَاهِدُ اللَّهَ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا وَالرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ يَعْلَمُ أَنَّهُ سَيَسْأَلُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ يَعْنِي عَلَيْهِ فَيُدْنِيهِ مِنْهَا ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ وَهِيَ أَحْسَنُ مِنْهَا فَيَقُولُ يَا رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا فَيَقُولُ أَيْ عَبْدِي أَلَمْ تُعَاهِدْنِي يَعْنِي أَنَّكَ لَا تَسْأَلُنِي غَيْرَهَا فَيَقُولُ يَا رَبِّ هَذِهِ لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا وَيُعَاهِدُهُ وَالرَّبُّ يَعْلَمُ أَنَّهُ سَيَسْأَلُهُ غَيْرَهَا فَيُدْنِيهِ مِنْهَا فَتُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ هِيَ أَحْسَنُ مِنْهَا فَيَقُولُ رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ أَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا وَأَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا فَيَقُولُ أَيْ عَبْدِي أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا فَيَقُولُ يَا رَبِّ هَذِهِ الشَّجَرَةُ لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا وَيُعَاهِدُهُ وَالرَّبُّ يَعْلَمُ أَنَّهُ سَيَسْأَلُهُ غَيْرَهَا لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهَا فَيُدْنِيهِ مِنْهَا فَيَسْمَعُ أَصْوَاتَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَقُولُ يَا رَبِّ الْجَنَّةَ الْجَنَّةَ فَيَقُولُ عَبْدِي أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنَّكَ لَا تَسْأَلُنِي غَيْرَهَا فَيَقُولُ يَا رَبِّ أَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ قَالَ فَيَقُولُ عَزَّ وَجَلَّ مَا يَصْرِينِي مِنْكَ أَيْ عَبْدِي أَيُرْضِيكَ أَنْ أُعْطِيَكَ مِنْ الْجَنَّةِ الدُّنْيَا وَمِثْلَهَا مَعَهَا قَالَ فَيَقُولُ أَتَهْزَأُ بِي وَأَنْتَ رَبُّ الْعِزَّةِ قَالَ فَضَحِكَ عَبْدُ اللَّهِ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ ثُمَّ قَالَ أَلَا تَسْأَلُونِي لِمَ ضَحِكْتُ قَالُوا لَهُ لِمَ ضَحِكْتَ قَالَ لِضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا تَسْأَلُونِي لِمَ ضَحِكْتُ قَالُوا لِمَ ضَحِكْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لِضَحِكِ الرَّبِّ حِينَ قَالَ أَتَهْزَأُ بِي وَأَنْتَ رَبُّ الْعِزَّةِ
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی مرویات
حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا وہ آدمی ہوگا جو پل صراط پر چلتے ہوئے کبھی اوندھا گر جاتا ہوگا، کبھی چلنے لگتا ہوگا اور کبھی آگ کی لپٹ اسے جھلسا دیتی ہوگی، جب وہ پل صراط کو عبور کرچکے گا تو اس کی طرف پلٹ کر دیکھے گا اور کہے گا کہ بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دی، اللہ نے یہ مجھے ایسی نعمت عطاء فرمائی ہے جو اولین و آخرین میں سے کسی کو نہیں دی۔ اس کے بعد اس کی نظر ایک درخت پر پڑے گی جو اسی کی وجہ سے وہاں لایا گیا ہوگا، وہ اسے دیکھ کر کہے گا کہ پروردگار! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کرسکوں اور اس کا پانی پی سکوں، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے میرے بندے! اگر میں نے تجھے اس درخت کے قریب کردیا تو تو مجھ سے کچھ اور بھی مانگے گا؟ وہ عرض کرے گا نہیں، پروردگار! اور اللہ سے کسی اور چیز کا سوال نہ کرنے کا وعدہ کرے گا حالانکہ پروردگار کے علم میں یہ بات ہوگی کہ وہ اس سے مزید کچھ اور بھی مانگے گا کیونکہ اس کے سامنے چیزیں ہی ایسی آئیں گی جن پر صبر نہیں کیا جاسکتا، تاہم اسے اس درخت کے قریب کردیا جائے گا۔ کچھ دیر بعد اس کی نظر اس سے بھی زیادہ خوبصورت درخت پر پڑے گی اور حسب سابق سوال جواب ہوں گے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ بندے! کیا تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا کہ اب کچھ اور نہیں مانگے گا؟ وہ عرض کرے گا پروردگار! مجھے جنت میں داخلہ عطاء فرما، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کہ اے بندے! تجھ سے میرا پیچھا کیا چیز چھڑائے گی؟ کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ تجھے جنت میں دنیا اور اس کے برابر مزید دے دیا جائے؟ وہ عرض کرے گا کہ پروردگار! تو رب العزت ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ اتنا کہہ کر حضرت ابن مسعود ؓ اتنا ہنسے کہ ان کے دندان ظاہر ہوگئے، پھر کہنے لگے کہ تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے؟ لوگوں نے کہا کہ آپ خود ہی اپنے ہنسنے کی وجہ بتا دیجئے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے ہنسنے کی وجہ سے، کیونکہ نبی ﷺ بھی اس موقع پر مسکرائے تھے اور ہم سے فرمایا تھا کہ تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ خود ہی اپنے مسکرانے کی وجہ بتا دیجئے، نبی ﷺ نے فرمایا پروردگار کے ہنسنے کی وجہ سے، جب اس نے یہ عرض کیا کہ پروردگار! آپ رب العزت ہو کر مجھ سے مذاق کرتے ہیں۔
Top