حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی مرویات
حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ حدیبیہ سے رات کو واپس آ رہے تھے، ہم نے ایک نرم زمین پر پڑاؤ کیا، نبی ﷺ نے فرمایا ہماری خبرگیری کون کرے گا؟ (فجر کے لئے کون جگائے گا؟ ) میں نے اپنے آپ کو پیش کیا، نبی ﷺ نے فرمایا اگر تم بھی سوگئے تو؟ میں نے عرض کیا نہیں سوؤں گا، کئی مرتبہ کی تکرار کے بعد نبی ﷺ نے مجھ ہی کو متعین فرما دیا اور میں پہرہ داری کرنے لگا، لیکن جب صبح ہوئی تو نبی ﷺ کے ارشاد تم بھی سوجاؤگے، کے مطابق میری بھی آنکھ لگ گئی یہاں تک کہ سورج نکل آیا، نبی ﷺ بھی بیدار ہوگئے اور اسی طرح وضو اور فجر کی سنتیں ادا کیں جیسے کرتے تھے پھر ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اور فارغ ہو کر فرمایا اگر اللہ چاہتا کہ تم نہ سوؤ تو تم کبھی نہ سوتے، لیکن اللہ کی مشیت تھی کہ بعد والوں کے لئے تم پیشوا بن جاؤ لہذا اب اگر کوئی شخص نماز کے وقت میں سو جائے یا بھول جائے تو اسے اسی طرح کرنا چاہئے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر نبی ﷺ کی اونٹنی کے علاوہ تمام اونٹ مل گئے، نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا: یہاں جا کر تلاش کرو، میں متعلقہ جگہ پہنچا تو دیکھا کہ اس کی لگام ایک درخت سے الجھ گئی ہے، جسے ہاتھ سے ہی کھولنا ممکن تھا، میں اسے لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اس ذات کی قسم کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے اس کی لگام درخت سے الجھی ہوئی دیکھی تھی جسے ہاتھ سے ہی کھولنا ممکن تھا اور پھر نبی ﷺ پر سورت فتح نازل ہوئی۔