مسند امام احمد - عبداللہ بن عباس کی مرویات - حدیث نمبر 2672
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ الزَّعْفَرَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي جَعْفَرٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ قَالَ كَتَبَ نَجْدَةُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ خَمْسِ خِلَالٍ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ إِنَّ النَّاسَ يَزْعُمُونَ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ يُكَاتِبُ الْحَرُورِيَّةَ وَلَوْلَا أَنِّي أَخَافُ أَنْ أَكْتُمَ عِلْمِي لَمْ أَكْتُبْ إِلَيْهِ كَتَبَ إِلَيْهِ نَجْدَةُ أَمَّا بَعْدُ فَأَخْبِرْنِي هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ مَعَهُ وَهَلْ كَانَ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ وَهَلْ كَانَ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ وَمَتَى يَنْقَضِي يُتْمُ الْيَتِيمِ وَأَخْبِرْنِي عَنْ الْخُمُسِ لِمَنْ هُوَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ ابْنُ عَبَّاسٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ مَعَهُ فَيُدَاوِينَ الْمَرْضَى وَلَمْ يَكُنْ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ وَلَكِنَّهُ كَانَ يُحْذِيهِنَّ مِنْ الْغَنِيمَةِ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ وَلَا تَقْتُلْ الصِّبْيَانَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تَعْلَمُ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنْ الصَّبِيِّ الَّذِي قَتَلَهُ فَتَقْتُلَ الْكَافِرَ وَتَدَعَ الْمُؤْمِنَ وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ يُتْمِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَضِي وَلَعَمْرِي إِنَّ الرَّجُلَ تَنْبُتُ لِحْيَتُهُ وَهُوَ ضَعِيفُ الْأَخْذِ لِنَفْسِهِ فَإِذَا كَانَ يَأْخُذُ لِنَفْسِهِ مِنْ صَالِحِ مَا يَأْخُذُ النَّاسُ فَقَدْ ذَهَبَ الْيُتْمُ وَأَمَّا الْخُمُسُ فَإِنَّا كُنَّا نُرَى أَنَّهُ لَنَا فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا
عبداللہ بن عباس کی مرویات
یزید بن ہرمز کہتے ہیں ایک مرتبہ نجدہ بن عامر نے حضرت ابن عباس ؓ سے خط لکھ کر پانچ سوالات پوچھے، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا لوگ سمجھتے ہیں کہ ابن عباس ؓ خوارج سے خط و کتابت کرتا ہے، واللہ اگر مجھے کتمان علم کا خوف نہ ہوتا تو میں کبھی اس کا جواب نہ دیتا۔ نجدہ نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ یہ بتائیے، کیا نبی ﷺ اپنے ساتھ خواتین کو جہاد پر لے جاتے تھے؟ ان کے لئے حصہ مقرر کرتے تھے؟ بچوں کو قتل کرتے تھے، یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ اور خمس کس کا حق ہے؟ حضرت ابن عباس ؓ نے جوابا لکھا کہ نبی ﷺ اپنے ساتھ خواتین کو جہاد پر لے جاتے تھے اور وہ مریضوں کا علاج کرتی تھیں، نبی ﷺ نے ان کا حصہ مقرر نہیں کیا تھا البتہ انہیں بھی مال غنیمت میں سے کچھ نہ کچھ دے دیتے تھے، نبی ﷺ نے کسی بچے کو قتل نہیں کیا اور آپ بھی کسی کو قتل نہ کریں، ہاں! اگر آپ کو بھی اسی طرح کسی بچے کے بارے پتہ چل جائے جیسے حضرت خضر (علیہ السلام) کو اس بچے کے بارے پتہ چل گیا تھا جسے انہوں نے مار دیا تھا تو بات جدا ہے (اور یہ تمہارے لئے ممکن ہے) آپ نے یتیم کے متعلق پوچھا ہے کہ اس سے یتیم کا لفظ کب ہٹایا جائے گا؟ یاد رکھئے! جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائے اور اس کی سمجھ بوجھ ظاہر ہوجائے تو اسے اس کا مال دے دیا جائے کہ اب اس کی یتیمی ختم ہوگئی، ہماری رائے تو یہی تھی کہ نبی ﷺ کے قریبی رشتہ دار ہی اس کا مصداق تھا لیکن ہماری قوم نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
Top