مسند امام احمد - عبداللہ بن عباس کی مرویات - حدیث نمبر 2608
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ وَأَبُو سَعِيدٍ وَعَفَّانُ قَالُوا حَدَّثَنَا ثَابِتٌ حَدَّثَنَا هِلَالٌ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ عُمَرُ وَهُوَ عَلَى حَصِيرٍ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَوْ اتَّخَذْتَ فِرَاشًا أَوْثَرَ مِنْ هَذَا فَقَالَ مَا لِي وَلِلدُّنْيَا مَا مَثَلِي وَمَثَلُ الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ سَارَ فِي يَوْمٍ صَائِفٍ فَاسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا
عبداللہ بن عباس کی مرویات
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ نبی صلی اللہ جس چٹائی پر تشریف فرما ہیں، پہلوئے مبارک پر اس کے نشانات پڑچکے ہیں، عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! اگر آپ ﷺ اس سے کچھ نرم بستر بنوا لیتے تو کتنا اچھا ہوتا؟ نبی ﷺ نے فرمایا میرا دنیا سے کیا تعلق؟ میری اور دنیا کی مثال تو اس سوار کی سی جو گرمی کے موسم میں سارا دن چلتا رہے اور کچھ دیر کے لئے ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرے، پھر اسے چھوڑ کر چل دے۔
Top