مسند امام احمد - عبداللہ بن عباس کی مرویات - حدیث نمبر 2573
حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ وَيُونُسُ قَالَا حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي عَاصِمٍ الْغَنَوِيِّ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ يَزْعُمُ قَوْمُكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَلَ بِالْبَيْتِ وَأَنَّ ذَلِكَ سُنَّةٌ فَقَالَ صَدَقُوا وَكَذَبُوا قُلْتُ وَمَا صَدَقُوا وَمَا كَذَبُوا قَالَ صَدَقُوا رَمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَيْتِ وَكَذَبُوا لَيْسَ بِسُنَّةٍ إِنَّ قُرَيْشًا قَالَتْ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ دَعُوا مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ حَتَّى يَمُوتُوا مَوْتَ النَّغَفِ فَلَمَّا صَالَحُوهُ عَلَى أَنْ يَقْدَمُوا مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ وَيُقِيمُوا بِمَكَّةَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُشْرِكُونَ مِنْ قِبَلِ قُعَيْقِعَانَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ ارْمُلُوا بِالْبَيْتِ ثَلَاثًا وَلَيْسَ بِسُنَّةٍ قُلْتُ وَيَزْعُمُ قَوْمُكَ أَنَّهُ طَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ عَلَى بَعِيرٍ وَأَنَّ ذَلِكَ سُنَّةٌ فَقَالَ صَدَقُوا وَكَذَبُوا فَقُلْتُ وَمَا صَدَقُوا وَكَذَبُوا فَقَالَ صَدَقُوا قَدْ طَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ عَلَى بَعِيرٍ وَكَذَبُوا لَيْسَ بِسُنَّةٍ كَانَ النَّاسُ لَا يُدْفَعُونَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُصْرَفُونَ عَنْهُ فَطَافَ عَلَى بَعِيرٍ لِيَسْمَعُوا كَلَامَهُ وَلَا تَنَالُهُ أَيْدِيهِمْ قُلْتُ وَيَزْعُمُ قَوْمُكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَأَنَّ ذَلِكَ سُنَّةٌ قَالَ صَدَقُوا إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَمَّا أُمِرَ بِالْمَنَاسِكِ عَرَضَ لَهُ الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَسْعَى فَسَابَقَهُ فَسَبَقَهُ إِبْرَاهِيمُ ثُمَّ ذَهَبَ بِهِ جِبْرِيلُ إِلَى جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ فَعَرَضَ لَهُ شَيْطَانٌ قَالَ يُونُسُ الشَّيْطَانُ فَرَمَاهُ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ حَتَّى ذَهَبَ ثُمَّ عَرَضَ لَهُ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْوُسْطَى فَرَمَاهُ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ قَالَ قَدْ تَلَّهُ لِلْجَبِينِ قَالَ يُونُسُ وَثَمَّ تَلَّهُ لِلْجَبِينِ وَعَلَى إِسْمَاعِيلَ قَمِيصٌ أَبْيَضُ وَقَالَ يَا أَبَتِ إِنَّهُ لَيْسَ لِي ثَوْبٌ تُكَفِّنُنِي فِيهِ غَيْرُهُ فَاخْلَعْهُ حَتَّى تُكَفِّنَنِي فِيهِ فَعَالَجَهُ لِيَخْلَعَهُ فَنُودِيَ مِنْ خَلْفِهِ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا فَالْتَفَتَ إِبْرَاهِيمُ فَإِذَا هُوَ بِكَبْشٍ أَبْيَضَ أَقْرَنَ أَعْيَنَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَقَدْ رَأَيْتُنَا نَبِيعُ هَذَا الضَّرْبَ مِنْ الْكِبَاشِ قَالَ ثُمَّ ذَهَبَ بِهِ جِبْرِيلُ إِلَى الْجَمْرَةِ الْقُصْوَى فَعَرَضَ لَهُ الشَّيْطَانُ فَرَمَاهُ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ حَتَّى ذَهَبَ ثُمَّ ذَهَبَ بِهِ جِبْرِيلُ إِلَى مِنًى قَالَ هَذَا مِنًى قَالَ يُونُسُ هَذَا مُنَاخُ النَّاسِ ثُمَّ أَتَى بِهِ جَمْعًا فَقَالَ هَذَا الْمَشْعَرُ الْحَرَامُ ثُمَّ ذَهَبَ بِهِ إِلَى عَرَفَةَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ هَلْ تَدْرِي لِمَ سُمِّيَتْ عَرَفَةَ قُلْتُ لَا قَالَ إِنَّ جِبْرِيلَ قَالَ لِإِبْرَاهِيمَ عَرَفْتَ قَالَ يُونُسُ هَلْ عَرَفْتَ قَالَ نَعَمْ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَمِنْ ثَمَّ سُمِّيَتْ عَرَفَةَ ثُمَّ قَالَ هَلْ تَدْرِي كَيْفَ كَانَتْ التَّلْبِيَةُ قُلْتُ وَكَيْفَ كَانَتْ قَالَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَمَّا أُمِرَ أَنْ يُؤَذِّنَ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ خَفَضَتْ لَهُ الْجِبَالُ رُءُوسَهَا وَرُفِعَتْ لَهُ الْقُرَى فَأَذَّنَ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الْغَنَوِيُّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ فَذَكَرَهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ لَا تَنَالُهُ أَيْدِيهِمْ وَقَالَ وَثَمَّ تَلَّ إِبْرَاهِيمُ إِسْمَاعِيلَ لِلْجَبِينِ
عبداللہ بن عباس کی مرویات
ابوالطفیل کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ سے عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ نبی ﷺ نے دوران طواف رمل کیا ہے اور یہ سنت ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ لوگ کچھ سچ اور کچھ غلط کہتے ہیں، میں نے عرض کیا سچ کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ فرمایا سچ تو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہو سلم نے بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے رمل کیا ہے لیکن اسے سنت قرار دینا غلط ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قریش نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کہا تھا کہ محمد ﷺ اور ان کے صحابہ ؓ کو چھوڑ دو، تاآنکہ یہ اسی طرح مرجائیں جیسے اونٹ کی ناک میں کیڑا نکلنے سے وہ مرجاتا ہے، جب انہوں نے نبی ﷺ سے منجملہ دیگر شرائط کے اس شرط پر صلح کی کہ نبی ﷺ اپنے صحابہ ؓ کے ساتھ آئندہ سال مکہ مکرمہ میں آکر تین دن ٹھہر سکتے ہیں تو نبی ﷺ آئندہ سال تشریف لائے، مشرکین جبل قعیقعان کی طرف بیٹھے ہوئے تھے، انہیں یہ دیکھ کر نبی ﷺ نے صحابہ کو تین چکروں میں رمل کا حکم دیا، یہ سنت نہیں ہے، میں نے عرض کیا کہ آپ کی قوم کا یہ بھی خیال ہے کہ نبی ﷺ نے صفا مروہ کے درمیان سعی اونٹ پر بیٹھ کر کی ہے اور یہ سنت ہے؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا یہ لوگ کچھ صحیح اور کچھ غلط کہتے ہیں، میں نے عرض کیا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ فرمایا یہ بات تو صحیح ہے کہ نبی ﷺ نے اونٹ پر بیٹھ کر سعی کی ہے، لیکن اسے سنت قرار دینا غلط ہے، اصل میں لوگ نبی ﷺ کے پاس سے ہٹتے تھے اور نہ ہی انہیں ہٹایا جاسکتا تھا، اس لئے نبی ﷺ نے اونٹ پر بیٹھ کر سعی کی تاکہ وہ نبی ﷺ کا کلام بھی سن لیں اور ان کے ہاتھ بھی نبی ﷺ تک نہ پہنچیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کی قوم کا یہ بھی خیال ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے صفا مروہ کے درمیان سعی کی اور یہ سعی کرنا سنت ہے؟ فرمایا وہ سچ کہتے ہیں، جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مناسک حج کی ادائیگی کا حکم ہوا تو شیطان مسعی کے قریب ان کے سامنے آیا اور ان سے مسابقت کی، لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آگے بڑھ گئے، پھر حضرت جبرئیل (علیہ السلام) انہیں لے کر جمرہ عقبہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں پھر شیطان ان کے سامنے آگیا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے سات کنکریاں دے ماریں اور وہ دور ہوگیا، جمرہ وسطی کے قریب وہ دوبارہ ظاہر ہوا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے پھر سات کنکریاں ماریں، یہی وہ جگہ ہے جہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو پیشانی کے بل لٹایا تھا۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے اس وقت سفید رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی، وہ کہنے لگے اباجان! اس کے علاوہ تو میرے کوئی کپڑے نہیں ہیں جن میں آپ مجھے کفن دے سکیں، اس لئے آپ ان ہی کپڑوں کو میرے جسم پر سے اتار لیں تاکہ اس میں مجھ کو کفن دے سکیں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے کپڑے اتارنے کے لئے آگے بڑھے تو ان کے پیچھے سے کسی نے آواز لگائی اے ابراہیم! (علیہ السلام) تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں ایک سفید رنگ کا، سینگوں والا اور بڑی بڑی آنکھوں والا دنبہ کھڑا تھا، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو اس ضرب کے نشانات تلاش کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ پھر حضرت جبرئیل (علیہ السلام) انہیں لے کر آخری جمرہ کی طرف چلے، راستے میں پھر شیطان سامنے آیا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پھر اسے سات کنکریاں ماریں، یہاں تک کہ وہ دور ہوگیا، پھر حضرت جبرئیل (علیہ السلام) انہیں لے کر منیٰ کے میدان میں آئے اور فرمایا کہ یہ منیٰ ہے، پھر مزدلفہ لے کر آئے اور بتایا کہ یہ مشعر حرام ہے، پھر انہیں لے کر عرفات پہنچے۔ کیا تم جانتے ہو کہ عرفہ کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ فرمایا یہاں پہنچ کر حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پوچھا کہ کیا آپ پہچان گئے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہیں سے اس جگہ کا نام عرفہ پڑگیا، پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ تلبیہ کا آغاز کیسے ہوا؟ میں نے پوچھا کہ کیسے ہوا؟ فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو لوگوں میں حج کی منادی کرنے کا حکم ہوا تو پہاڑوں نے ان کے سامنے اپنے سر جھکا دیئے اور بستیاں ان کے سامنے اٹھا کر پیش کردی گئیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے لوگوں میں حج کا اعلان فرمایا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
Top