مسند امام احمد - عبداللہ بن عباس کی مرویات - حدیث نمبر 2387
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ أَخْبَرَنَا أَبُو التَّيَّاحِ عَنْ مُوسَى بْنِ سَلَمَةَ قَالَ حَجَجْتُ أَنَا وَسِنَانُ بْنُ سَلَمَةَ وَمَعَ سِنَانٍ بَدَنَةٌ فَأَزْحَفَتْ عَلَيْهِ فَعَيَّ بِشَأْنِهَا فَقُلْتُ لَئِنْ قَدِمْتُ مَكَّةَ لَأَسْتَبْحِثَنَّ عَنْ هَذَا قَالَ فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ قُلْتُ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ وَعِنْدَهُ جَارِيَةٌ وَكَانَ لِي حَاجَتَانِ وَلِصَاحِبِي حَاجَةٌ فَقَالَ أَلَا أُخْلِيكَ قُلْتُ لَا فَقُلْتُ كَانَتْ مَعِي بَدَنَةٌ فَأَزْحَفَتْ عَلَيْنَا فَقُلْتُ لَئِنْ قَدِمْتُ مَكَّةَ لَأَسْتَبْحِثَنَّ عَنْ هَذَا فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبُدْنِ مَعَ فُلَانٍ وَأَمَرَهُ فِيهَا بِأَمْرِهِ فَلَمَّا قَفَّا رَجَعَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَصْنَعُ بِمَا أَزْحَفَ عَلَيَّ مِنْهَا قَالَ انْحَرْهَا وَاصْبُغْ نَعْلَهَا فِي دَمِهَا وَاضْرِبْهُ عَلَى صَفْحَتِهَا وَلَا تَأْكُلْ مِنْهَا أَنْتَ وَلَا أَحَدٌ مِنْ رُفْقَتِكَ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ أَكُونُ فِي هَذِهِ الْمَغَازِي فَأُغْنَمُ فَأُعْتِقُ عَنْ أُمِّي أَفَيُجْزِئُ عَنْهَا أَنْ أُعْتِقَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَرَتْ امْرَأَةُ سَلْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيَّ أَنْ يَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أُمِّهَا تُوُفِّيَتْ وَلَمْ تَحْجُجْ أَيُجْزِئُ عَنْهَا أَنْ تَحُجَّ عَنْهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّهَا دَيْنٌ فَقَضَتْهُ عَنْهَا أَكَانَ يُجْزِئُ عَنْ أُمِّهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَلْتَحْجُجْ عَنْ أُمِّهَا وَسَأَلَهُ عَنْ مَاءِ الْبَحْرِ فَقَالَ مَاءُ الْبَحْرِ طَهُورٌ
عبداللہ بن عباس کی مرویات
موسیٰ بن سلمہ (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور سنان بن سلمہ حج کے لئے روانہ ہوئے، سنان کے پاس ایک اونٹنی تھی وہ راستے میں تھک گئی اور وہ اس کی وجہ سے عاجز آگئے، میں نے سوچا کہ مکہ مکرمہ پہنچ کر اس کے متعلق ضرور دریافت کروں گا، چناچہ جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو میں نے سنان سے کہا کہ آؤ، حضرت ابن عباس ؓ کے پاس چلتے ہیں، ہم وہاں گئے، وہاں پہنچے تو حضرت ابن عباس ؓ کے پاس ایک بچی بیٹھی ہوئی تھی، مجھے ان سے دو کام تھے اور میرے ساتھی کو ایک، وہ کہنے لگا کہ میں باہر چلا جاتا ہوں، آپ تنہائی میں اپنی بات کرلیں؟ میں نے کہا ایسی کوئی بات ہی نہیں (جو تخلیہ میں پوچھنا ضروری ہو) پھر میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے عرض کیا کہ میرے پاس ایک اونٹنی تھی جو راستے میں تھک گئی، میں نے دل میں سوچا تھا کہ میں مکہ مکرمہ پہنچ کر اس کے متعلق ضرور دریافت کروں گا، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ کچھ اونٹنیاں کہیں بھجوائیں اور جو حکم دینا تھا وہ دے دیا، جب وہ شخص جانے لگا تو پلٹ کر واپس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! ﷺ اگر ان میں سے کوئی اونٹ تھک جائے تو کیا کروں؟ فرمایا اسے ذبح کر کے اس کے نعل کو اس کے خون میں رنگ دینا اور اسے اس کی پیشانی پر لگا دینا، نہ خود اسے کھانا اور نہ تمہارا کوئی ساتھی اسے کھائے۔ میں نے دوسرا سوال یہ پوچھا کہ میں غزوات میں شرکت کرتا ہوں، مجھے اس میں مال غنیمت کا حصہ ملتا ہے، میں والدہ کی طرف سے کسی غلام یا باندی کو آزاد کردیتا ہوں تو کیا میرا ان کی طرف سے کسی کو آزاد کرنا ان کے لئے کفایت کرے گا؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ سنان بن عبداللہ جہنی کی اہلیہ نے ان سے کہا کہ نبی ﷺ سے یہ سوال پوچھیں کہ ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، وہ حج نہیں کرسکی تھیں، کیا ان کی طرف سے میرا حج کرنا ان کے لئے کفایت کر جائے گا؟ نبی ﷺ نے جواب دیا کہ اگر ان کی والدہ پر کوئی قرض ہوتا اور وہ اسے ادا کر دیتیں تو کیا وہ ادا ہوجاتا یا نہیں؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں! فرمایا پھر اسے اپنی والدہ کی طرف سے حج کرلینا چاہیے، انہوں نے سمندر کے پانی کے بارے بھی سوال کیا تو فرمایا کہ سمندر کا پانی پاک کرنے والا ہے۔
Top