مسند امام احمد - عبداللہ بن عباس کی مرویات - حدیث نمبر 2252
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَمِّهِ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى قَيْصَرَ يَدْعُوهُ إِلَى الْإِسْلَامِ وَبَعَثَ كِتَابَهُ مَعَ دِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ وَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى لِيَدْفَعَهُ إِلَى قَيْصَرَ فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى وَكَانَ قَيْصَرُ لَمَّا كَشَفَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهُ جُنُودَ فَارِسَ مَشَى مِنْ حِمْصَ إِلَى إِيلْيَاءَ عَلَى الزَّرَابِيِّ تُبْسَطُ لَهُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ فَلَمَّا جَاءَ قَيْصَرَ كِتَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حِينَ قَرَأَهُ الْتَمِسُوا لِي مِنْ قَوْمِهِ مَنْ أَسْأَلُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَخْبَرَنِي أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ أَنَّهُ كَانَ بِالشَّامِ فِي رِجَالٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَدِمُوا تُجَّارًا وَذَلِكَ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كُفَّارِ قُرَيْشٍ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَأَتَانِي رَسُولُ قَيْصَرَ فَانْطَلَقَ بِي وَبِأَصْحَابِي حَتَّى قَدِمْنَا إِيلْيَاءَ فَأُدْخِلْنَا عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ فِي مَجْلِسِ مُلْكِهِ عَلَيْهِ التَّاجُ وَإِذَا حَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ فَقَالَ لِتَرْجُمَانِهِ سَلْهُمْ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ أَنَا أَقْرَبُهُمْ إِلَيْهِ نَسَبًا قَالَ مَا قَرَابَتُكَ مِنْهُ قَالَ قُلْتُ هُوَ ابْنُ عَمِّي قَالَ أَبُو سُفْيَانَ وَلَيْسَ فِي الرَّكْبِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ غَيْرِي قَالَ فَقَالَ قَيْصَرُ أَدْنُوهُ مِنِّي ثُمَّ أَمَرَ بِأَصْحَابِي فَجُعِلُوا خَلْفَ ظَهْرِي عِنْدَ كَتِفِي ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لِأَصْحَابِهِ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَإِنْ كَذَبَ فَكَذِّبُوهُ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَوَاللَّهِ لَوْلَا الِاسْتِحْيَاءُ يَوْمَئِذٍ أَنْ يَأْثُرَ أَصْحَابِي عَنِّي الْكَذِبَ لَكَذَبْتُهُ حِينَ سَأَلَنِي وَلَكِنِّي اسْتَحَيْتُ أَنْ يُؤْثَرَ عَنِّي الْكَذِبُ فَصَدَقْتُهُ عَنْهُ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُ كَيْفَ نَسَبُ هَذَا الرَّجُلِ فِيكُمْ قَالَ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ مِنْكُمْ أَحَدٌ قَطُّ قَبْلَهُ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ فِي الْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ قَالَ فَقُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَأَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبَعُوهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ قُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ فَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ قَالَ قُلْتُ بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ قَالَ قُلْتُ لَا وَنَحْنُ الْآنَ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ وَنَحْنُ نَخَافُ ذَلِكَ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ وَلَمْ تُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا أَنْتَقِصُهُ بِهِ غَيْرُهَا لَأَخَافُ أَنْ يُؤْثَرَ عَنِّي الْكَذِبُ قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ أَوْ قَاتَلَكُمْ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ كَيْفَ كَانَتْ حَرْبُكُمْ وَحَرْبُهُ قَالَ قُلْتُ كَانَتْ دُوَلًا سِجَالًا نُدَالُ عَلَيْهِ الْمَرَّةَ وَيُدَالُ عَلَيْنَا الْأُخْرَى قَالَ فَبِمَ يَأْمُرُكُمْ قَالَ قُلْتُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَيَنْهَانَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ قَالَ فَقَالَ لِتَرْجُمَانِهِ حِينَ قُلْتُ لَهُ ذَلِكَ قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ فِيكُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو نَسَبٍ وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَطُّ قَبْلَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوْ كَانَ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ يَأْتَمُّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَذَرَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ وَسَأَلْتُكَ أَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمْ اتَّبَعُوهُ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حِينَ يُخَالِطُ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ لَا يَسْخَطُهُ أَحَدٌ وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ وَقَاتَلَكُمْ فَزَعَمْتَ أَنْ قَدْ فَعَلَ وَأَنَّ حَرْبَكُمْ وَحَرْبَهُ يَكُونُ دُوَلًا يُدَالُ عَلَيْكُمْ الْمَرَّةَ وَتُدَالُونَ عَلَيْهِ الْأُخْرَى وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى وَيَكُونُ لَهَا الْعَاقِبَةُ وَسَأَلْتُكَ بِمَاذَا يَأْمُرُكُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَحْدَهُ لَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَيَنْهَاكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ وَيَأْمُرُكُمْ بِالصِّدْقِ وَالصَّلَاةِ وَالْعَفَافِ وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَهَذِهِ صِفَةُ نَبِيٍّ قَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَكِنْ لَمْ أَظُنَّ أَنَّهُ مِنْكُمْ فَإِنْ يَكُنْ مَا قُلْتَ فِيهِ حَقًّا فَيُوشِكُ أَنْ يَمْلِكَ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ وَاللَّهِ لَوْ أَرْجُو أَنْ أَخْلُصَ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لُقِيَّهُ وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِهِ فَقُرِئَ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَى مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَعَلَيْكَ إِثْمُ الْأَرِيسِيِّينَ يَعْنِي الْأَكَّارَةَ وَ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَلَمَّا قَضَى مَقَالَتَهُ عَلَتْ أَصْوَاتُ الَّذِينَ حَوْلَهُ مِنْ عُظَمَاءِ الرُّومِ وَكَثُرَ لَغَطُهُمْ فَلَا أَدْرِي مَاذَا قَالُوا وَأَمَرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَلَمَّا خَرَجْتُ مَعَ أَصْحَابِي وَخَلَصْتُ لَهُمْ قُلْتُ لَهُمْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ هَذَا مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ يَخَافُهُ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَوَاللَّهِ مَا زِلْتُ ذَلِيلًا مُسْتَيْقِنًا أَنَّ أَمْرَهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ قَلْبِي الْإِسْلَامَ وَأَنَا كَارِهٌ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ قَالَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ فَذَكَرَهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ فَذَكَرَهُ
عبداللہ بن عباس کی مرویات
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے قیصر روم کو ایک خط لکھا جس میں اسے اسلام کی دعوت دی اور یہ خط دے کر حضرت دحیہ کلبی ؓ کو بھیج دیا اور انہیں یہ حکم دیا کہ یہ خط بصرہ کے گورنر تک پہنچا دینا تاکہ وہ قیصر کے پاس اس خط کو بھجوا دے، چناچہ بصرہ کے گورنر نے وہ خط قیصر روم تک پہنچا دیا قیصر کو چونکہ اللہ تعالیٰ نے ایرانی لشکروں پر فتح یابی عطاء فرمائی تھی اس لئے وہ اس کی خوشی میں شکرانے کے طور پر حمص سے بیت المقدس تک پیدل سفر طے کر کے آیا ہوا تھا، اس سفر میں اس کے لئے راستے بھر قالین بچھائے گئے، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب قیصر کو نبی ﷺ کا خط ملا تو اس نے وہ خط پڑھ کر کہا کہ ان کی قوم کا کوئی آدمی تلاش کر کے لاؤ تاکہ میں اس سے کچھ سوالات پوچھ سکوں۔ سیدنا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ابو سفیان ؓ بن حرب نے مجھ سے بیان کیا کہ ہرقل (شاہ روم) نے ان کے پاس ایک آدمی بھیجا ( اور وہ) قریش کے چند سواروں میں سے جو اس وقت بیٹھے ہوئے تھے) اور وہ لوگ شام میں تاجر (بن کر گئے) تھے ( اور یہ واقعہ) اس زمانہ میں (ہوا ہے) جبکہ رسول اللہ ﷺ نے ابو سفیان اور کفار قریش سے ایک محدود عہد کیا تھا۔ چناچہ قریش ہرقل کے پاس آئے اور یہ لوگ (اس وقت) ایلیاء میں تھے، تو ہرقل نے ان کو اپنے دربار میں طلب کیا اور اس کے گرد سرداران روم (بیٹھے ہوئے تھے) پھر ان (سب قریشیوں کو) اس نے اپنے قریب) بلایا اور اپنے ترجمان کو طلب کیا اور (قریشیوں سے مخاطب ہو کر) کہا کہ تم میں سب سے زیادہ اس شخص کا قریب النسب کون ہے، جو اپنے کو نبی کہتا ہے؟ ابوسفیان ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں ان میں سب سے زیادہ (ان کا) قریب النسب ہوں (یہ سن کر) ہرقل نے کہا کہ ابوسفیان کو میرے قریب کردو اور اس کے ساتھیوں کو (بھی) قریب رکھو اور ان کو ابو سفیان کے پاس پشت پر (کھڑا) کرو، پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو کہ میں ابو سفیان سے اس مرد کا حال پوچھتا ہوں (جو اپنے کو نبی کہتا ہے) پس اگر یہ مجھ سے جھوٹ کہے تو تم (فورا) اس کی تکذیب کردینا (ابوسفیان کہتے ہیں کہ) اللہ کی قسم! اگر مجھے اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے، تو یقینا میں آپ ﷺ کی نسبت غلط باتیں بیان کردیتا۔ غرض سب سے پہلے جو ہرقل نے مجھ سے پوچھا وہ یہ تھا کہ ان کا نسب تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ وہ ہم میں (بڑے نسب والے ہیں۔ (پھر) ہرقل نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے ان سے پہلے بھی اس بات (یعنی نبوت) کا دعوی کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں پھر ہرقل نے کہا کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ پھر ہرقل نے کہا کہ باثر لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے؟ میں نے کہا (امیروں نے نہیں بلکہ) کمزور لوگوں نے۔ پھر ہرقل بولا کہ آیا ان کے پیرو دن بہ دن بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں؟ میں نے کہا کم نہیں ہوتے بلکہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔ پھر ہرقل نے پوچھا کہ آیا ان لوگوں میں سے کوئی ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد ان کے دین سے بدظن ہو کر منحرف بھی ہوجاتا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ پھر ہرقل نے پوچھا کہ کیا وہ کبھی وعدہ خلافی کرتے ہیں میں نے کہا کہ نہیں اور اب ہم ان کی طرف سے مہلت میں ہیں، ہم نہیں جانتے کہ وہ اس مہلت کے زمانہ میں کیا کریں (وعدہ خلافی یا وعدہ وفائی) ابو سفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے مجھے قابو نہیں ملا کہ میں کوئی بات آپ ﷺ کے حالات میں داخل کردیتا۔ پھر ہرقل نے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی اس سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں تو ہرقل بولا تمہاری جنگ اس سے کیسی رہتی ہے؟ میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان کے درمیان ڈول کے مثل رہتی ہے کہ کبھی وہ ہم سے لے لیتے ہیں اور کبھی ہم ان سے لے لیتے ہیں (یعنی کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ۔ پھر ہرقل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کی عبادت کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور (شرکیہ باتیں و عبادتیں) جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے، سب چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہو کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہارے درمیان میں اعلی نسب والے ہیں چناچہ تمام پیغمبر اپنی قوم کے نسب میں اعلی نسب مبعوث ہوا کرتے ہیں۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا یہ بات (یعنی اپنی نبوت کی خبر) تم میں سے کسی اور نے بھی ان سے پہلے کہی تھی؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں۔ میں نے اپنے دل میں یہ کہا تھا کہ اگر یہ بات ان سے پہلے کوئی کہہ چکا ہو تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو اس قول کی تقلید کرتے ہیں جو ان سے پہلے کہا جا چکا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہوگا تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہیں جو اپنے باپ دادا کا ملک (اقتدارحاصل کرنا) چاہتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا اس سے پہلے کہ انہوں نے جو یہ بات (نبوت کا دعوی) کہی ہے، کہیں تم ان پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ تو تم نے کہا کہ نہیں پس اب میں یقینا جانتا ہوں کہ کوئی شخص ایسا نہیں ہوسکتا کہ لوگوں سے جھوٹ بولنا (غلط بیانی) چھوڑ دے اور اللہ پر جھوٹ بولے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا بڑے (بااثر) لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے؟ تو تم نے کہا کہ کمزور لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے۔ اور در اصل تمام پیغمبروں کے پیرو یہی لوگ ہوتے رہے ہیں۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے پیرو زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم؟ تو تم نے بیان کیا کہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں اور درحقیقت ایمان کا یہی حال ہوتا ہے تاوقتیکہ کمال کو پہنچ جائے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص بعد میں اس کے کہ ان کے دین میں داخل ہوجائے، ان کے دین سے ناخوش ہو کر دین سے پھر بھی جاتا ہے؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں اور ایمان کا حال ایسا ہی ہے جب اس بشاشت دلوں میں رچ بس جائے تو پھر نہیں نکلتی اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں تو تم نے بیان کیا کہ نہیں! اور بات یہ ہے کہ اسی طرح تمام پیغمبر وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو نیز تمہیں بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں اور تمہیں نماز پڑھنے سچ بولنے اور پرہیزگاری اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ پس اگر جو تم کہتے ہو سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کے مالک ہوجائیں گے اور بیشک میں (کتب سابقہ کی پیش گوئی سے) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں مگر میں یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے۔ پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا تو میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام و سعی کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقینا میں ان کے قدموں کو دھوتا۔
Top