مسند امام احمد - عبداللہ بن عباس کی مرویات - حدیث نمبر 2239
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا اجْتَمَعَ الْقَوْمُ لِغَسْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ فِي الْبَيْتِ إِلَّا أَهْلُهُ عَمُّهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَالْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ وَقُثَمُ بْنُ الْعَبَّاسِ وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَصَالِحٌ مَوْلَاهُ فَلَمَّا اجْتَمَعُوا لِغَسْلِهِ نَادَى مِنْ وَرَاءِ الْبَابِ أَوْسُ بْنُ خَوْلِيِّ الْأَنْصَارِيُّ ثُمَّ أَحَدُ بَنِي عَوْفِ بْنِ الْخَزْرَجِ وَكَانَ بَدْرِيًّا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ لَهُ يَا عَلِيُّ نَشَدْتُكَ اللَّهَ وَحَظَّنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ ادْخُلْ فَدَخَلَ فَحَضَرَ غَسْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَلِ مِنْ غَسْلِهِ شَيْئًا قَالَ فَأَسْنَدَهُ إِلَى صَدْرِهِ وَعَلَيْهِ قَمِيصُهُ وَكَانَ الْعَبَّاسُ وَالْفَضْلُ وَقُثَمُ يُقَلِّبُونَهُ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ وَصَالِحٌ مَوْلَاهُمَا يَصُبَّانِ الْمَاءَ وَجَعَلَ عَلِيٌّ يَغْسِلُهُ وَلَمْ يُرَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ شَيْءٌ مِمَّا يُرَى مِنْ الْمَيِّتِ وَهُوَ يَقُولُ بِأَبِي وَأُمِّي مَا أَطْيَبَكَ حَيًّا وَمَيِّتًا حَتَّى إِذَا فَرَغُوا مِنْ غَسْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ يُغَسَّلُ بِالْمَاءِ وَالسِّدْرِ جَفَّفُوهُ ثُمَّ صُنِعَ بِهِ مَا يُصْنَعُ بِالْمَيِّتِ ثُمَّ أُدْرِجَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ ثَوْبَيْنِ أَبْيَضَيْنِ وَبُرْدِ حِبَرَةٍ ثُمَّ دَعَا الْعَبَّاسُ رَجُلَيْنِ فَقَالَ لِيَذْهَبْ أَحَدُكُمَا إِلَى أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَكَانَ أَبُو عُبَيْدَةَ يَضْرَحُ لِأَهْلِ مَكَّةَ وَلْيَذْهَبْ الْآخَرُ إِلَى أَبِي طَلْحَةَ بْنِ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَ أَبُو طَلْحَةَ يَلْحَدُ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ قَالَ ثُمَّ قَالَ الْعَبَّاسُ لَهُمَا حِينَ سَرَّحَهُمَا اللَّهُمَّ خِرْ لِرَسُولِكَ قَالَ فَذَهَبَا فَلَمْ يَجِدْ صَاحِبُ أَبِي عُبَيْدَةَ أَبَا عُبَيْدَةَ وَوَجَدَ صَاحِبُ أَبِي طَلْحَةَ أَبَا طَلْحَةَ فَجَاءَ بِهِ فَلَحَدَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبداللہ بن عباس کی مرویات
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جب نبی ﷺ کو غسل دینے پر اتفاق رائے ہوگیا، تو اس وقت گھر میں صرف نبی ﷺ کے اہل خانہ ہی تھے مثلا ان کے چچا حضرت عباس، حضرت علی، فضل، قثم، اسامہ بن زید ؓ اور صالح اسی دوران گھر کے دروازے پر کھڑے حضرت اوس بن خولی انصاری خزرجی بدری ؓ نے حضرت علی ؓ کو پکار کر کہا کہ اے علی ؓ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ ہمارا حصہ بھی رکھنا، حضرت علی ؓ نے ان سے فرمایا اند آجاؤ، چناچہ وہ بھی داخل ہوگئے اور اس موقع پر موجود رہے گو کہ انہوں نے غسل میں شرکت نہیں کی۔ انہوں نے نبی ﷺ کو اپنے سینے سے سہارا دیا، جبکہ قمیص جسم پر ہی تھی، حضرت عباس ؓ، فضل اور قثم ؓ پہلو مبارک بدل رہے تھے، حضرت علی ؓ ان کا ساتھ دے رہے تھے، حضرت اسامہ اور صالح پانی ڈال رہے تھے اور حضرت علی ؓ غسل دے رہے تھے، نبی ﷺ کی کوئی ایسی چیز ظاہر نہیں ہوئی جو میت کی ظاہر ہوا کرتی ہے، حضرت علی ؓ غسل دیتے ہوئے کہتے جارہے تھے میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ حیاومیتا کتنے پاکیزہ رہے، یاد رہے کہ نبی ﷺ کو غسل پانی اور بیری سے دیا گیا تھا غسل سے فراغت کے بعد صحابہ ؓ نے نبی ﷺ کے جسم مبارک کو خشک کیا، پھر وہی کیا جو میت کے ساتھ کیا جاتا ہے یعنی انہیں تین کپڑوں میں لپیٹ دیا گیا جن میں سے دو سفید تھے اور ایک دھاری دار سرخ یمنی چادر تھی، پھر معلوم ہوا کہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ صندوقی قبر بناتے ہیں جیسے اہل مکہ اور حضرت ابو طلحہ ؓ جن کا اصل نام زید بن سہل تھا، اہل مدینہ کے لئے بغلی قبر بناتے ہیں تو حضرت عباس ؓ نے دو آدمیوں کو بلایا، ایک کو حضرت ابوعبیدہ ؓ کے پاس بھیجا اور دوسرے کو ابو طلحہ ؓ کے پاس اور دعاء کی کہ اے اللہ! اپنے پغمبر کے لئے جو بہتر ہو اسی کو پسند فرما لے، چناچہ حضرت ابو طلحہ ؓ کے پاس جانے والے آدمی کو حضرت ابوطلحہ ؓ مل گئے اور وہ انہی کو لے کر آگیا، اس طرح نبی ﷺ کے لئے بغلی قبر تیار کی گئی۔
Top