مسند امام احمد - عبداللہ بن عباس کی مرویات - حدیث نمبر 1866
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَتَبَ نَجْدَةُ الْحَرُورِيُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ قَتْلِ الصِّبْيَانِ وَعَنْ الْخُمُسِ لِمَنْ هُوَ وَعَنْ الصَّبِيِّ مَتَى يَنْقَطِعُ عَنْهُ الْيُتْمُ وَعَنْ النِّسَاءِ هَلْ كَانَ يَخْرُجُ بِهِنَّ أَوْ يَحْضُرْنَ الْقِتَالَ وَعَنْ الْعَبْدِ هَلْ لَهُ فِي الْمَغْنَمِ نَصِيبٌ قَالَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَّا الصِّبْيَانُ فَإِنْ كُنْتَ الْخَضِرَ تَعْرِفُ الْكَافِرَ مِنْ الْمُؤْمِنِ فَاقْتُلْهُمْ وَأَمَّا الْخُمُسُ فَكُنَّا نَقُولُ إِنَّهُ لَنَا فَزَعَمَ قَوْمُنَا أَنَّهُ لَيْسَ لَنَا وَأَمَّا النِّسَاءُ فَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ مَعَهُ بِالنِّسَاءِ فَيُدَاوِينَ الْمَرْضَى وَيَقُمْنَ عَلَى الْجَرْحَى وَلَا يَحْضُرْنَ الْقِتَالَ وَأَمَّا الصَّبِيُّ فَيَنْقَطِعُ عَنْهُ الْيُتْمُ إِذَا احْتَلَمَ وَأَمَّا الْعَبْدُ فَلَيْسَ لَهُ مِنْ الْمَغْنَمِ نَصِيبٌ وَلَكِنَّهُ قَدْ كَانَ يُرْضَخُ لَهُمْ
عبداللہ بن عباس کی مرویات
عطاء کہتے ہیں کہ نجدہ حروری نے ایک خط میں حضرت ابن عباس ؓ سے بچوں کو قتل کرنے کے متعلق دریافت کیا اور یہ پوچھا کہ " خمس " کس کا حق ہے؟ بچے سے یتیمی کا لفظ کب ختم ہوتا ہے؟ کیا عورتوں کو جنگ میں لے کر نکلا جاسکتا ہے؟ کیا غلام کا مال غنیمت میں کوئی حصہ ہے؟ حضرت ابن عباس ؓ نے اس کے جواب میں لکھا کہ جہاں تک بچوں کا تعلق ہے تو اگر تم خضر (علیہ السلام) ہو کر مومن اور کافر میں فرق کرسکتے ہو تو ضرور قتل کرو، جہاں تک خمس کا مسئلہ ہے تو ہم یہی کہتے تھے کہ یہ ہمارا حق ہے لیکن ہماری قوم کا خیال ہے کہ ہمارا حق نہیں ہے، رہا عورتوں کا معاملہ تو نبی ﷺ اپنے ساتھ عورتوں کو جنگ میں لے جایا کرتے تھے، وہ بیماروں کا علاج اور زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں لیکن جنگ میں شریک نہیں ہوتی تھیں اور بچے سے یتیمی کا داغ اس کے بالغ ہونے کے بعد دھل جاتا ہے اور باقی رہا غلام تو مال غنیمت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے، البتہ انہیں بھی تھوڑا بہت دے دیا جاتا تھا۔
Top