مسند امام احمد - عبداللہ بن عباس کی مرویات - حدیث نمبر 1785
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَرُمِيَ بِنَجْمٍ عَظِيمٍ فَاسْتَنَارَ قَالَ مَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ إِذَا كَانَ مِثْلُ هَذَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ كُنَّا نَقُولُ يُولَدُ عَظِيمٌ أَوْ يَمُوتُ عَظِيمٌ قُلْتُ لِلزُّهْرِيِّ أَكَانَ يُرْمَى بِهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ نَعَمْ وَلَكِنْ غُلِّظَتْ حِينَ بُعِثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ لَا يُرْمَى بِهَا لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّ رَبَّنَا تَبَارَكَ اسْمُهُ إِذَا قَضَى أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ هَذِهِ السَّمَاءَ الدُّنْيَا ثُمَّ يَسْتَخْبِرُ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ فَيَقُولُ الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ فَيُخْبِرُونَهُمْ وَيُخْبِرُ أَهْلُ كُلِّ سَمَاءٍ سَمَاءً حَتَّى يَنْتَهِيَ الْخَبَرُ إِلَى هَذِهِ السَّمَاءِ وَيَخْطِفُ الْجِنُّ السَّمْعَ فَيُرْمَوْنَ فَمَا جَاءُوا بِهِ عَلَى وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ وَلَكِنَّهُمْ يَقْذِفُونَ وَيَزِيدُونَ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَيَخْطِفُ الْجِنُّ وَيُرْمَوْنَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي رِجَالٌ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كَانُوا جُلُوسًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ إِذْ رُمِيَ بِنَجْمٍ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ إِذَا قَضَى رَبُّنَا أَمْرًا سَبَّحَهُ حَمَلَةُ الْعَرْشِ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَيَقُولُونَ الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ فَيَقُولُونَ الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ فَيَقُولُونَ كَذَا وَكَذَا فَيُخْبِرُ أَهْلُ السَّمَاوَاتِ بَعْضُهُمْ بَعْضًا حَتَّى يَبْلُغَ الْخَبَرُ السَّمَاءَ الدُّنْيَا قَالَ وَيَأْتِي الشَّيَاطِينُ فَيَسْتَمِعُونَ الْخَبَرَ فَيَقْذِفُونَ بِهِ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ وَيَرْمُونَ بِهِ إِلَيْهِمْ فَمَا جَاءُوا بِهِ عَلَى وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ وَلَكِنَّهُمْ يَزِيدُونَ فِيهِ وَيَقْرِفُونَ وَيَنْقُصُونَ
عبداللہ بن عباس کی مرویات
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ چند صحابہ کرام ؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے، اتنی دیر میں ایک بڑا ستارہ ٹوٹا اور روشن ہوگیا، نبی ﷺ نے فرمایا جب زمانہ جاہلیت میں اس طرح ہوتا تھا تو تم لوگ کیا کہتے تھے؟ لوگوں نے کہا کہ ہم کہتے تھے کسی عظیم آدمی کی پیدائش یا کسی عظیم آدمی کی موت واقع ہونے والی ہے (راوی کہتے ہیں کہ میں نے امام زہری (رح) سے پوچھا کیا زمانہ جاہلیت میں بھی ستارے پھینکے جاتے تھے؟ انہوں نے کہا ہاں! لیکن نبی ﷺ کی بعثت کے بعد سختی ہوگئی) نبی ﷺ نے فرمایا ستاروں کا پھینکا جانا کسی کی موت وحیات کی وجہ سے نہیں ہوتا اصل بات یہ ہے کہ جب ہمارا رب کسی کام کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو حاملین عرش جو فرشتے ہیں وہ تسبیح کرنے لگتے ہیں، ان کی تسبیح سن کر قریب کے آسمان والے بھی تسبیح کرنے لگتے ہیں، حتی کہ ہوتے ہوتے یہ سلسلہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتا ہے، پھر اس آسمان والے فرشتے جو حاملین عرش کے قریب ہوتے ہیں ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا کہا ہے؟ وہ انہیں بتا دیتے ہیں، اس طرح ہر آسمان والے دوسرے آسمان والوں کو بتا دیتے ہیں، یہاں تک کہ یہ خبر آسمان دنیا کے فرشتوں تک پہنچتی ہے، وہاں سے جنات کوئی ایک آدھ بات اچک لیتے ہیں، ان پر یہ ستارے پھینکے جاتے ہیں، اب جو بات وہ صحیح صحیح بتا دیتے ہیں وہ تو سچ ثابت ہوجاتی ہے لیکن وہ اکثر ان میں اپنی طرف سے یہ اضافہ کردیتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ چند صحابہ کرام ؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے، اتنی دیر میں ایک بڑا ستارہ ٹوٹا اور روشن ہوگیا،۔۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب ہمارا رب کسی کام کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو حاملین عرش جو فرشتے ہیں وہ تسبیح کرنے لگتے ہیں، ان کی تسبیح سن کر قریب کے آسمان والے بھی تسبیح کرنے لگتے ہیں، حتی کہ ہوتے ہوتے یہ سلسلہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتا ہے، پھر اس آسمان والے فرشتے جو حاملین عرش کے قریب ہوتے ہیں ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا کہا ہے؟ وہ انہیں بتا دیتے ہیں، اس طرح ہر آسمان والے دوسرے آسمان والوں کو بتا دیتے ہیں، یہاں تک کہ یہ خبر آسمان دنیا کے فرشتوں تک پہنچتی ہے، وہاں سے جنات کوئی ایک آدھ بات اچک لیتے ہیں، ان پر یہ ستارے پھینکے جاتے ہیں، اب جو بات وہ صحیح صحیح بتا دیتے ہیں وہ تو سچ ثابت ہوجاتی ہے لیکن وہ اکثر ان میں اپنی طرف سے یہ اضافہ کردیتے ہیں۔
Top