مسند امام احمد - حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 366
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْوَلِيدِ الشَّنِّيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ قَالَ جَلَسَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَجْلِسًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُهُ تَمُرُّ عَلَيْهِ الْجَنَائِزُ قَالَ فَمَرُّوا بِجِنَازَةٍ فَأَثْنَوْا خَيْرًا فَقَالَ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّوا بِجِنَازَةٍ فَأَثْنَوْا خَيْرًا فَقَالَ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّوا بِجِنَازَةٍ فَقَالُوا خَيْرًا فَقَالَ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّوا بِجِنَازَةٍ فَقَالُوا هَذَا كَانَ أَكْذَبَ النَّاسِ فَقَالَ إِنَّ أَكْذَبَ النَّاسِ أَكْذَبُهُمْ عَلَى اللَّهِ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ مَنْ كَذَبَ عَلَى رُوحِهِ فِي جَسَدِهِ قَالَ قَالُوا أَرَأَيْتَ إِذَا شَهِدَ أَرْبَعَةٌ قَالَ وَجَبَتْ قَالُوا أَوْ ثَلَاثَةٌ قَالَ وَثَلَاثَةٌ وَجَبَتْ قَالُوا وَاثْنَيْنِ قَالَ وَجَبَتْ وَلَأَنْ أَكُونَ قُلْتُ وَاحِدًا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ قَالَ فَقِيلَ لِعُمَرَ هَذَا شَيْءٌ تَقُولُهُ بِرَأْيِكَ أَمْ شَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا بَلْ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حضرت عمر فاروق ؓ کی مرویات
عبداللہ بن بریدہ (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ اس جگہ بیٹھے ہوئے تھے جہاں نبی ﷺ بھی بیٹھتے تھے اور وہاں سے جنازے گذرتے تھے، وہاں سے ایک جنازہ کا گذر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، حضرت عمر ؓ نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر دوسرا جنازہ گذرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، حضرت عمر ؓ نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، تیسرے جنازہ پر بھی ایسا ہی ہوا، جب چوتھا جنازہ گذرا تو لوگوں نے کہا یہ سب سے بڑا جھوٹا تھا، حضرت عمر ؓ نے فرمایا لوگوں میں سب سے بڑا جھوٹا وہ ہوتا ہے جو اللہ پر سب سے زیادہ جھوٹ باندھتا ہے، اس کے بعد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے جسم میں موجود روح پر جھوٹ باندھتے ہیں، لوگوں نے کہا یہ بتائیے کہ اگر کسی مسلمان کے لئے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا اس کے لئے جنت واجب ہوگئی، لوگوں نے عرض کیا اگر تین آدمی ہوں؟ تو فرمایا تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا، فرمایا دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے، اگر میں ایک کے متعلق پوچھ لیتا تو یہ میرے نزدیک سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پسندیدہ تھا، کسی شخص نے حضرت عمر ؓ سے پوچھا کہ یہ بات آپ اپنی رائے سے کہہ رہے ہیں یا آپ نے نبی ﷺ سے سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا نہیں، بلکہ میں نے نبی ﷺ سے سنی ہے۔
Top