مسند امام احمد - حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 179
قَالَ قَرَأْتُ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ قَالَا لَقِينَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ فَذَكَرْنَا الْقَدَرَ وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ فَقَالَ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ فَقُولُوا إِنَّ ابْنَ عُمَرَ مِنْكُمْ بَرِيءٌ وَأَنْتُمْ مِنْهُ بُرَآءُ ثَلَاثَ مِرَارٍ ثُمَّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُمْ بَيْنَا هُمْ جُلُوسٌ أَوْ قُعُودٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ رَجُلٌ يَمْشِي حَسَنُ الْوَجْهِ حَسَنُ الشَّعْرِ عَلَيْهِ ثِيَابُ بَيَاضٍ فَنَظَرَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ مَا نَعْرِفُ هَذَا وَمَا هَذَا بِصَاحِبِ سَفَرٍ ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ آتِيكَ قَالَ نَعَمْ فَجَاءَ فَوَضَعَ رُكْبَتَيْهِ عِنْدَ رُكْبَتَيْهِ وَيَدَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ فَقَالَ مَا الْإِسْلَامُ قَالَ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ وَتَحُجُّ الْبَيْتَ قَالَ فَمَا الْإِيمَانُ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْقَدَرِ كُلِّهِ قَالَ فَمَا الْإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْمَلَ لِلَّهِ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ قَالَ فَمَتَى السَّاعَةُ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ قَالَ فَمَا أَشْرَاطُهَا قَالَ إِذَا الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ الْعَالَةُ رِعَاءُ الشَّاءِ تَطَاوَلُوا فِي الْبُنْيَانِ وَوَلَدَتْ الْإِمَاءُ رَبَّاتِهِنَّ قَالَ ثُمَّ قَالَ عَلَيَّ الرَّجُلَ فَطَلَبُوهُ فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا فَمَكَثَ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً ثُمَّ قَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أَتَدْرِي مَنْ السَّائِلُ عَنْ كَذَا وَكَذَا قَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ ذَاكَ جِبْرِيلُ جَاءَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ قَالَ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ جُهَيْنَةَ أَوْ مُزَيْنَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِيمَا نَعْمَلُ أَفِي شَيْءٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضَى أَوْ فِي شَيْءٍ يُسْتَأْنَفُ الْآنَ قَالَ فِي شَيْءٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضَى فَقَالَ رَجُلٌ أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِيمَا نَعْمَلُ قَالَ أَهْلُ الْجَنَّةِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَهْلُ النَّارِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ قَالَ يَحْيَى قَالَ هُوَ هَكَذَا يَعْنِي كَمَا قَرَأْتَ عَلَيَّ
حضرت عمر فاروق ؓ کی مرویات
یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمان حمیری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہماری ملاقات حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے ہوئی، ہم نے ان کے سامنے مسئلہ تقدیر کو چھیڑا اور لوگوں کے اعتراضات کا بھی ذکر کیا، ہماری بات سن کر انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ تو ان سے کہہ دینا کہ ابن عمر ؓ تم سے بری ہے اور تم اس سے بری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، خوبصورت رنگ، خوبصورت بال اور سفید کپڑوں میں ملبوس اس آدمی کو دیکھ کر لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اشاروں میں کہنے لگے کہ ہم تو اسے نہیں پہچانتے اور یہ مسافر بھی نہیں لگتا۔ اس آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں قریب آسکتا ہوں؟ نبی ﷺ نے اسے اجازت دے دی، چناچہ وہ نبی ﷺ کے گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر اور نبی ﷺ کی رانوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اسلام کیا ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہو ہی نہیں سکتا اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں، نیز یہ کہ آپ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، رمضان کے روزے رکھیں اور حج بیت اللہ کریں۔ اس نے اگلا سوال یہ پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ فرمایا تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، جنت وجہنم، قیامت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور تقدیر پر یقین رکھو، اس نے پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ فرمایا تم اللہ کی رضاحاصل کرنے کے لئے کوئی عمل اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم یہ تصور نہیں کرسکتے تو کم ازکم یہی تصور کرلو کہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔ اس نے پھر پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ فرمایا جس سے سوال پوچھا جارہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا یعنی ہم دونوں ہی اس معاملے میں بیخبر ہیں، اس نے کہا کہ پھر اس کی کچھ علامات ہی بتا دیجئے؟ فرمایا جب تم یہ دیکھو کہ جن کے جسم پر چیتھڑا اور پاؤں میں لیترا نہیں ہوتا تھا، غریب اور چرواہے تھے، آج وہ بڑی بڑی بلڈنگیں اور عمارتیں بنا کر ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں، لونڈیاں اپنی مالکن کو جنم دینے لگیں تو قیامت قریب آگئی۔ جب وہ آدمی چلا گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا ذرا اس آدمی کو بلا کر لانا، صحابہ کرام ؓ اس کی تلاش میں نکلے تو انہیں کچھ نظر نہ آیا، دو تین دن بعد نبی ﷺ نے حضرت عمر فاروق ؓ سے فرمایا اے ابن خطاب! کیا تمہیں علم ہے کہ وہ سائل کون تھا؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ سے قبیلہ جہینہ یا مزینہ کے ایک آدمی نے بھی یہ سوال پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ! ہم جو عمل کرتے ہیں کیا ان کا فیصلہ پہلے سے ہوچکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے؟ فرمایا ان کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے، اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر عمل کا کیا فائدہ؟ فرمایا اہل جنت کے لئے اہل جنت کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کے لئے اہل جہنم کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں۔
Top