مسند امام احمد - حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 170
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ بِعَرَفَةَ قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ وَحَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ خَيْثَمَةَ عَنْ قَيْسِ بْنِ مَرْوَانَ أَنَّهُ أَتَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ جِئْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ الْكُوفَةِ وَتَرَكْتُ بِهَا رَجُلًا يُمْلِي الْمَصَاحِفَ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِهِ فَغَضِبَ وَانْتَفَخَ حَتَّى كَادَ يَمْلَأُ مَا بَيْنَ شُعْبَتَيْ الرَّحْلِ فَقَالَ وَمَنْ هُوَ وَيْحَكَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ فَمَا زَالَ يُطْفَأُ وَيُسَرَّى عَنْهُ الْغَضَبُ حَتَّى عَادَ إِلَى حَالِهِ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا ثُمَّ قَالَ وَيْحَكَ وَاللَّهِ مَا أَعْلَمُهُ بَقِيَ مِنْ النَّاسِ أَحَدٌ هُوَ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْهُ وَسَأُحَدِّثُكَ عَنْ ذَلِكَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزَالُ يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اللَّيْلَةَ كَذَاكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ وَإِنَّهُ سَمَرَ عِنْدَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَأَنَا مَعَهُ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَمِعُ قِرَاءَتَهُ فَلَمَّا كِدْنَا أَنْ نَعْرِفَهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَطْبًا كَمَا أُنْزِلَ فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ قَالَ ثُمَّ جَلَسَ الرَّجُلُ يَدْعُو فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ سَلْ تُعْطَهْ سَلْ تُعْطَهْ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُلْتُ وَاللَّهِ لَأَغْدُوَنَّ إِلَيْهِ فَلَأُبَشِّرَنَّهُ قَالَ فَغَدَوْتُ إِلَيْهِ لِأُبَشِّرَهُ فَوَجَدْتُ أَبَا بَكْرٍ قَدْ سَبَقَنِي إِلَيْهِ فَبَشَّرَهُ وَلَا وَاللَّهِ مَا سَبَقْتُهُ إِلَى خَيْرٍ قَطُّ إِلَّا وَسَبَقَنِي إِلَيْهِ
حضرت عمر فاروق ؓ کی مرویات
قیس بن روان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عمر فاروق ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ امیرالمومنین! میں کوفہ سے آپ کے پاس آرہا ہوں، وہاں میں ایک ایسے آدمی کو چھوڑ کر آیا ہوں جو اپنی یاد سے قرآن کریم املاء کروا رہا ہے، یہ سن کر حضرت عمر ؓ غضب ناک ہوگئے اور ان کی رگیں اس طرح پھول گئیں کہ کجاوے کے دونوں کنارے ان سے بھرگئے اور مجھ سے پوچھا افسوس! وہ کون ہے؟ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا نام لیا۔ میں نے دیکھا کہ ان کا نام سنتے ہی حضرت عمر ؓ کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا اور ان کی وہ کیفیت ختم ہونا شروع ہوگئی، یہاں تک کہ وہ نارمل ہوگئے اور مجھ سے فرمایا کمبخت! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے علم کے مطابق لوگوں میں ان سے زیادہ اس کا کوئی حق دار نہیں ہے اور میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں۔ نبی ﷺ کا یہ معمول مبارک تھا کہ رات کے وقت حضرت صدیق اکبر ؓ کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات میں مشورہ کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ اسی طرح رات کے وقت آپ ﷺ ان کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے، میں بھی وہاں موجود تھا، فراغت کے بعد جب نبی ﷺ وہاں سے نکلے تو ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ نکل آئے، دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے، نبی ﷺ اس کی قرأت سننے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ ابھی ہم اس آدمی کی آواز پہچاننے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قرأت پر اسے پڑھے، پھر وہ آدمی بیٹھ کر دعاء کرنے لگا، نبی ﷺ اس سے فرمانے لگے مانگو، تمہیں عطاء کیا جائے گا۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ صبح ہوتے ہی میں انہیں یہ خوشخبری ضرور سناؤں گا، چناچہ جب میں صبح انہیں یہ خوشخبری سنانے کے لئے پہنچا تو وہاں حضرت صدیق اکبر ؓ کو بھی پایا، وہ مجھ پر اس معاملے میں بھی سبقت لے گئے۔
Top