عبداللہ یشکری کی ایک صحابی سے روایت۔
عبداللہ یشکری کہتے ہیں کہ جب کوفہ کی جامع مسجد میں پہلی مرتبہ تعمیر ہوئی تو میں وہاں گیا اس وقت وہاں کھجوروں کے درخت بھی تھے اور اس کی دیواریں ریت جیسی مٹی کی تھیں وہاں ایک صاحب یہ حدیث بیان کر رہے تھے کہ مجھے نبی ﷺ کے حجتہ الوداع کی خبر ملی تو میں نے اپنے اونٹوں میں سے ایک قابل سواری اونٹ چھانٹ کر نکالا اور روانہ ہوگیا یہاں تک کہ عرفہ کے راستے میں ایک جگہ پہنچ کر بیٹھ گیا جب نبی ﷺ سواری پر سوار ہوئے تو میں نے آپ کو آپ کے حلیہ کی وجہ سے پہنچانا۔ اسی دوران ایک آدمی جو ان سے آگے تھا کہنے لگا کہ سواریوں کے راستے سے ہٹ جاؤ نبی ﷺ نے فرمایا ہوسکتا ہے کہ اسے کوئی کام ہو چناچہ میں نبی ﷺ کے اتنا قریب ہوا کہ دونوں سواریوں کے سر ایک دوسرے کے قریب آگئے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجیے جو مجھے جنت میں داخل کرسکے اور جہنم سے نجات کا سبب بن جائے نبی ﷺ نے فرمایا واہ واہ میں نے خطبہ میں اختصار سے کام لیا تھا اور تم نے بہت عمدہ سوال کیا اگر تم سمجھ دار ہوئے تو تم صرف اللہ کی عبادت کرنا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا نماز قائم کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا ماہ رمضان کے روزے رکھنا اب سواریوں کے لئے راستہ چھوڑ دو۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ مغیرہ کے والد کہتے ہیں میں ایک مجلس میں بیٹھا وہاں ایک صاحب یہ حدیث بیان کررہے تھے کہ مجھے نبی ﷺ کے حجتہ الوداع کی خبر ملی تو میں عرفہ کے راستے میں ایک جگہ پہنچ کر بیٹھ گیا۔ پھر روای نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجیے جو مجھے جنت میں داخل کردے اور جہنم سے نجات کا سبب بن جائے نبی ﷺ نے فرمایا نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا لوگوں کے لئے وہی پسند کرنا جو اپنے لئے کرو اور ان کے لئے بھی وہی ناپسند کرنا جو اپنے لئے کرو اب سواریوں کے لئے راستہ چھوڑ دو۔