صحيح البخاری - - حدیث نمبر 26127
قَالَ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَخْرُجَ قَالَتْ اجْلِسْ حَتَّى أُحَدِّثَكَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا مِنْ الْأَيَّامِ فَصَلَّى صَلَاةَ الْهَاجِرَةِ ثُمَّ قَعَدَ فَفَزِعَ النَّاسُ فَقَالَ اجْلِسُوا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنِّي لَمْ أَقُمْ مَقَامِي هَذَا لِفَزَعٍ وَلَكِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي خَبَرًا مَنَعَنِي مِنْ الْقَيْلُولَةِ مِنْ الْفَرَحِ وَقُرَّةِ الْعَيْنِ فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَنْشُرَ عَلَيْكُمْ فَرَحَ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَنِي أَنَّ رَهْطًا مِنْ بَنِي عَمِّهِ رَكِبُوا الْبَحْرَ فَأَصَابَتْهُمْ رِيحٌ عَاصِفٌ فَأَلْجَأَتْهُمْ الرِّيحُ إِلَى جَزِيرَةٍ لَا يَعْرِفُونَهَا فَقَعَدُوا فِي قُوَيْرِبِ سَفِينَةٍ حَتَّى خَرَجُوا إِلَى الْجَزِيرَةِ فَإِذَا هُمْ بِشَيْءٍ أَهْلَبَ كَثِيرِ الشَّعْرِ لَا يَدْرُونَ أَرَجُلٌ هُوَ أَوْ امْرَأَةٌ فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيْهِمْ السَّلَامَ فَقَالُوا أَلَا تُخْبِرُنَا فَقَالَ مَا أَنَا بِمُخْبِرِكُمْ وَلَا مُسْتَخْبِرِكُمْ وَلَكِنَّ هَذَا الدَّيْرَ قَدْ رَهِقْتُمُوهُ فَفِيهِ مَنْ هُوَ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ أَنْ يُخْبِرَكُمْ وَيَسْتَخْبِرَكُمْ قَالُوا قُلْنَا مَا أَنْتَ قَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ فَانْطَلَقُوا حَتَّى أَتَوْا الدَّيْرَ فَإِذَا هُمْ بِرَجُلٍ مُوثَقٍ شَدِيدِ الْوَثَاقِ مُظْهِرٍ الْحُزْنَ كَثِيرِ التَّشَكِّي فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيْهِمْ فَقَالَ مَنْ أَنْتُمْ قَالُوا مِنْ الْعَرَبِ قَالَ مَا فَعَلَتْ الْعَرَبُ أَخَرَجَ نَبِيُّهُمْ بَعْدُ قَالُوا نَعَمْ قَالَ فَمَا فَعَلَتْ الْعَرَبُ قَالُوا خَيْرًا آمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ قَالَ ذَلِكَ خَيْرٌ لَهُمْ وَكَانَ لَهُ عَدُوٌّ فَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَالَ فالْعَرَبُ الْيَوْمَ إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ وَكَلِمَتُهُمْ وَاحِدَةٌ قَالُوا نَعَمْ قَالَ فَمَا فَعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ قَالَ قَالُوا صَالِحَةٌ يَشْرَبُ مِنْهَا أَهْلُهَا لِشَفَتِهِمْ وَيَسْقُونَ مِنْهَا زَرْعَهُمْ قَالَ فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَيْنَ عَمَّانَ وَبَيْسَانَ قَالُوا صَالِحٌ يُطْعِمُ جَنَاهُ كُلَّ عَامٍ قَالَ فَمَا فَعَلَتْ بُحَيْرَةُ الطَّبَرِيَّةِ قَالُوا مَلْأَى قَالَ فَزَفَرَ ثُمَّ زَفَرَ ثُمَّ زَفَرَ ثُمَّ حَلَفَ لَوْ خَرَجْتُ مِنْ مَكَانِي هَذَا مَا تَرَكْتُ أَرْضًا مِنْ أَرْضِ اللَّهِ إِلَّا وَطِئْتُهَا غَيْرَ طَيْبَةَ لَيْسَ لِي عَلَيْهَا سُلْطَانٌ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هَذَا انْتَهَى فَرَحِي ثَلَاثَ مَرَّاتٍ إِنَّ طَيْبَةَ الْمَدِينَةُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الدَّجَّالِ أَنْ يَدْخُلَهَا ثُمَّ حَلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ مَا لَهَا طَرِيقٌ ضَيِّقٌ وَلَا وَاسِعٌ فِي سَهْلٍ وَلَا جَبَلٍ إِلَّا عَلَيْهِ مَلَكٌ شَاهِرٌ بِالسَّيْفِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَا يَسْتَطِيعُ الدَّجَّالُ أَنْ يَدْخُلَهَا عَلَى أَهْلِهَا قَالَ عَامِرٌ فَلَقِيتُ الْمُحْرَّرَ بْنَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ فَقَالَ أَشْهَدُ عَلَى أَبِي أَنَّهُ حَدَّثَنِي كَمَا حَدَّثَتْكَ فَاطِمَةُ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ فِي نَحْوِ الْمَشْرِقِ قَالَ ثُمَّ لَقِيتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ فَذَكَرْتُ لَهُ حَدِيثَ فَاطِمَةَ فَقَالَ أَشْهَدُ عَلَى عَائِشَةَ أَنَّهَا حَدَّثَتْنِي كَمَا حَدَّثَتْكَ فَاطِمَةُ غَيْرَ أَنَّهَا قَالَتْ الْحَرَمَانِ عَلَيْهِ حَرَامٌ مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
امام شعبی کہتے ہیں کہ جب میں وہاں سے جانے لگا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ میں تمہیں نبی کی ایک حدیث سناتی ہوں، ایک مرتبہ نبی باہر نکلے ظہر کی نماز پڑھائی، جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی نماز پوری کرلی تو فرمایا بیٹھے رہو، منبر پر تشریف فرما ہوئے لوگ حیران ہوئے تو فرمایا لوگو! اپنی نماز کی جگہ پر ہی رہو میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا۔ میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری میرے پاس آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہوگئے اور مجھے ایک بات بتائی کہ وہ اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے، اچانک سمندر میں طوفان آگیا، وہ سمندر میں ایک نامعلوم جزیرہ کی طرف پہنچے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ کے اندر داخل ہوئے تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا، انہیں سمجھ نہ آئی کہ وہ مرد ہے یا عورت انہوں نے اسے سلام کیا، اس نے جواب دیا، انہوں نے کہا تم کون ہو؟ اس نے کہا: اے قوم! اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے ہم نے اس سے پوچھا تم کون ہو؟ اس نے بتایا کہ میں جساسہ ہوں، چناچہ وہ چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہوگئے، وہاں ایک انسان تھا جو انتہائی سختی کے ساتھ بندھا ہوا تھا وہ انتہائی غمگین اور بہت زیادہ شکایت کرنے والا تھا، انہوں نے سلام کیا، اس نے جواب اور پوچھا تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں، اس نے پوچھا کہ اہل عرب کا کیا بنا؟ کیا ان کے نبی کا ظہور ہوگیا؟ انہوں نے کہا ہاں! اس نے پوچھا پھر اہل عرب نے کیا کیا؟ انہوں نے بتایا کہ اچھا کیا، ان پر ایمان لے آئے اور ان کی تصدیق کی، انہوں نے کہا کہ ان کے دشمن تھے لیکن اللہ نے ان پر غالب کردیا، اس نے پوچھا کہ اب عرب کا ایک اللہ، ایک دین ایک کلمہ ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! اس نے پوچھا زغر کے چشمے کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا صحیح ہے، لوگ اس کا پانی خود بھی پیتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو بھی سیراب کرتے ہیں، اس نے پوچھا عمان اور بیسان کے درمیان باغ کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا صحیح ہے اور ہر سال پھل دیتا ہے، اس نے پوچھا بحیریہ طبریہ کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا کہ بھرا ہوا ہے، اس پر وہ تین مرتبہ اچھلا اور قسم کھا کر کہنے لگا اگر میں اس جگہ سے نکل گیا تو اللہ کی زمین کا کوئی حصہ ایسا نہیں چھوڑوں گا جسے اپنے پاؤں تلے روند نہ دوں، سوائے طیبہ کے کہ اس پر مجھے قدرت نہیں ہوگی، نبی نے فرمایا یہاں پہنچ کر میری خوشی بڑھ گئی (تین مرتبہ فرمایا مدینہ ہی طیبہ ہے اور اللہ نے میرے حرم میں داخل ہونا دجال پر حرام قرار دے رکھا ہے، پھر نبی نے قسم کھا کر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، مدینہ منورہ کا کوئی تنگ یا کشادہ، وادی اور پہاڑ ایسا نہیں ہے جس پر قیامت تک لے لئے تلوار سونتا ہوا فرشتہ مقرر نہ ہو، دجال اس شہر میں داخل ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔ عامر کہتے ہیں کہ پھر میں محرر بن ابی ہریرہ سے ملا اور ان سے حضرت فاطمہ بن قیس کی یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ میرے والد صاحب نے مجھے یہ حدیث اسی طرح سنائی تھی، جس طرح حضرت فاطمہ نے آپ کو سنائی ہے البتہ والد صاحب نے بتایا تھا کہ نبی نے فرمایا ہے وہ مشرق کی جانب ہے۔ پھر میں قاسم بن محمد سے ملا اور ان سے یہ حدیث فاطمہ ذکر کی، انہوں نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت عائشہ نے مجھے بھی یہ حدیث سی طرح سنائی تھی جیسے حضرت فاطمہ نے آپ کو سنائی ہے، البتہ انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ دونوں حرم یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دجال پر حرام ہوں گے۔
Top