مسند امام احمد - حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں - حدیث نمبر 25896
قَالَ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَخْرُجَ قَالَتْ اجْلِسْ حَتَّى أُحَدِّثَكَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا مِنْ الْأَيَّامِ فَصَلَّى صَلَاةَ الْهَاجِرَةِ ثُمَّ قَعَدَ فَفَزِعَ النَّاسُ فَقَالَ اجْلِسُوا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنِّي لَمْ أَقُمْ مَقَامِي هَذَا لِفَزَعٍ وَلَكِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي خَبَرًا مَنَعَنِي الْقَيْلُولَةَ مِنْ الْفَرَحِ وَقُرَّةِ الْعَيْنِ فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَنْشُرَ عَلَيْكُمْ فَرَحَ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَنِي أَنَّ رَهْطًا مِنْ بَنِي عَمِّهِ رَكِبُوا الْبَحْرَ فَأَصَابَتْهُمْ رِيحٌ عَاصِفٌ فَأَلْجَأَتْهُمْ الرِّيحُ إِلَى جَزِيرَةٍ لَا يَعْرِفُونَهَا فَقَعَدُوا فِي قُوَيْرِبٍ بِالسَّفِينَةِ حَتَّى خَرَجُوا إِلَى الْجَزِيرَةِ فَإِذَا هُمْ بِشَيْءٍ أَهْلَبَ كَثِيرِ الشَّعْرِ لَا يَدْرُونَ أَرَجُلٌ هُوَ أَوْ امْرَأَةٌ فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيْهِمْ السَّلَامَ قَالُوا أَلَا تُخْبِرُنَا قَالَ مَا أَنَا بِمُخْبِرِكُمْ وَلَا بِمُسْتَخْبِرِكُمْ وَلَكِنْ هَذَا الدَّيْرَ قَدْ رَهِقْتُمُوهُ فَفِيهِ مَنْ هُوَ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ أَنْ يُخْبِرَكُمْ وَيَسْتَخْبِرَكُمْ قَالَ قُلْنَا فَمَا أَنْتَ قَالَ أَنَا الْجَسَّاسَةُ فَانْطَلَقُوا حَتَّى أَتَوْا الدَّيْرَ فَإِذَا هُمْ بِرَجُلٍ مُوثَقٍ شَدِيدِ الْوَثَاقِ مُظْهِرٍ الْحُزْنَ كَثِيرِ التَّشَكِّي فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيْهِمْ فَقَالَ مِمَّنْ أَنْتُمْ قَالُوا مِنْ الْعَرَبِ قَالَ مَا فَعَلَتْ الْعَرَبُ أَخَرَجَ نَبِيُّهُمْ بَعْدُ قَالُوا نَعَمْ قَالَ فَمَا فَعَلُوا قَالُوا خَيْرًا آمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ قَالَ ذَلِكَ خَيْرٌ لَهُمْ وَكَانَ لَهُ عَدُوٌّ فَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَالَ فَالْعَرَبُ الْيَوْمَ إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ وَكَلِمَتُهُمْ وَاحِدَةٌ قَالُوا نَعَمْ قَالَ فَمَا فَعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ قَالُوا صَالِحَةٌ يَشْرَبُ مِنْهَا أَهْلُهَا لِشَفَتِهِمْ وَيَسْقُونَ مِنْهَا زَرْعَهُمْ قَالَ فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَيْنَ عَمَّانَ وَبَيْسَانَ قَالُوا صَالِحٌ يُطْعِمُ جَنَاهُ كُلَّ عَامٍ قَالَ فَمَا فَعَلَتْ بُحَيْرَةُ الطَّبَرِيَّةِ قَالُوا مَلْأَى قَالَ فَزَفَرَ ثُمَّ زَفَرَ ثُمَّ زَفَرَ ثُمَّ حَلَفَ لَوْ خَرَجْتُ مِنْ مَكَانِي هَذَا مَا تَرَكْتُ أَرْضًا مِنْ أَرْضِ اللَّهِ إِلَّا وَطِئْتُهَا غَيْرَ طَيْبَةَ لَيْسَ لِي عَلَيْهَا سُلْطَانٌ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هَذَا انْتَهَى فَرَحِي ثَلَاثَ مِرَارٍ إِنَّ طَيْبَةَ الْمَدِينَةَ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ حَرَمِي عَلَى الدَّجَّالِ أَنْ يَدْخُلَهَا ثُمَّ حَلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ مَا لَهَا طَرِيقٌ ضَيِّقٌ وَلَا وَاسِعٌ فِي سَهْلٍ وَلَا فِي جَبَلٍ إِلَّا عَلَيْهِ مَلَكٌ شَاهِرٌ بِالسَّيْفِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَا يَسْتَطِيعُ الدَّجَّالُ أَنْ يَدْخُلَهَا عَلَى أَهْلِهَا قَالَ عَامِرٌ فَلَقِيتُ الْمُحَرَّرَ بْنَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَحَدَّثْتُهُ حَدِيثَ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ فَقَالَ أَشْهَدُ عَلَى أَبِي أَنَّهُ حَدَّثَنِي كَمَا حَدَّثَتْكَ فَاطِمَةُ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ نَحْوَ الْمَشْرِقِ قَالَ ثُمَّ لَقِيتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ فَذَكَرْتُ لَهُ حَدِيثَ فَاطِمَةَ فَقَالَ أَشْهَدُ عَلَى عَائِشَةَ أَنَّهَا حَدَّثَتْنِي كَمَا حَدَّثَتْكَ فَاطِمَةُ غَيْرَ أَنَّهَا قَالَتْ الْحَرَمَانِ عَلَيْهِ حَرَامٌ مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
امام شعبی کہتے ہیں کہ جب میں وہاں سے جانے لگا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ میں تمہیں نبی ﷺ کی ایک حدیث سناتی ہوں، ایک مرتبہ نبی ﷺ باہر نکلے اور ظہر کی نماز پڑھائی جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی نماز پوری کرلی تو فرمایا کہ بیٹھے رہو! منبر پر تشریف فرما ہوئے، لوگ حیران ہوئے تو فرمایا لوگو! اپنی نماز کی جگہ پر ہی بیٹھے رہو! میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا۔ میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری میرے پاس آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہوگئے اور مجھے ایک بات بتائی جس نے خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک سے مجھے قیلولہ کرنے سے روک دیا، اس لئے میں نے چاہا کہ تمہارے پیغمبر کی خوشی تم تک پھیلادوں چناچہ انہوں نے مجھے خبردی کہ وہ اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے، اچانک سمندر میں طوفان آگیا، وہ سمندر میں ایک نامعلوم جزیہ کی طرف پہنچے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیہ کے اندر داخل ہوئے تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا، انہیں سمجھ نہ آئی کہ وہ مرد ہے یا عورت انہوں نے اسے سلام کیا اس نے جواب دیا، انہوں نے کہا تو کون ہے؟ اس نے کہا اے قوم اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے ہم نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو اس نے بتایا کہ میں جساسہ ہوں، چناچہ وہ چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہوگئے وہاں ایک انسان تھا جسے انتہائی سختی کے ساتھ باندھا گیا تھا وہ انتہائی غمگین اور بہت زیادہ شکایت کرنے والا تھا، انہوں نے اسے سلام کیا، اس نے جواب دیا اور پوچھا تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں، اس نے پوچھا کہ اہل عرب کا کیا بنا؟ کیا ان کے نبی کا ظہور ہوگیا؟ انہوں نے کہا ہاں! اس نے پوچھا پھر اہل عرب نے کیا کیا؟ انہوں نے بتایا کہ اچھا کیا، ان پر ایمان لے آئے اور ان کی تصدیق کی اس نے کہا کہ انہوں نے اچھا کیا وہ ان کے دشمن تھے لیکن اللہ نے انہیں ان پر غالب کردیا، اس نے پوچھا کہ اب عرب کا ایک خدا، ایک دین اور ایک کلمہ ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! اس نے پوچھا زغر چشمے کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا کہ صحیح ہے لوگ اس کا پانی خود بھی پیتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو بھی اس سے سیراب کرتے ہیں، اس نے پوچھا عمان اور بیسان کے درمیان باغ کیا کیا بنا؟ انہوي نے کہا کہ صحیح ہے اور ہر سال پھل دیتا ہے اس نے پوچھا بحیرہ طربیہ کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا کہ بھرا ہوا ہے اس پر وہ تین مرتبہ بےچینی اور قسم کھا کر کہنے لگا اگر میں اس جگہ سے نکل گیا تو اللہ کی زمین کا کوئی حصہ ایسا نہیں چھوڑوں گا جسے اپنے پاؤں تلے روند نہ دوں سوائے طیبہ کے کہ اس پر مجھے کوئی قدرت نہیں ہوگی، نبی ﷺ نے فرمایا یہاں پہنچ کر میری خوشی بڑھ گئی (تین مرتبہ فرمایا) مدینہ ہی طیبہ ہے اور اللہ نے میرے حرم میں داخل ہونا دجال پر حرام قرار دے رکھا ہے، پھر نبی ﷺ نے قسم کھا کر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، مدینہ منورہ کا کوئی تنگ یا کشادہ، وادی اور پہاڑ ایسا نہیں ہے جس پر قیامت تک کے لئے تلوارسونتا ہوا فرشتہ مقرر نہ ہو، دجال اس شہر میں داخل ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔ عامر کہتے ہیں کہ پھر میں محرر بن ابی ہریرہ سے ملا اور ان سے حضرت فاطمہ بنت قیس کی یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا میں گواہی دیتاہوں کہ میرے والد صاحب نے مجھے یہ حدیث اسی طرح سنائی تھی جس طرح حضرت فاطمہ نے آپ کوئی سنائی ہے البتہ والد صاحب نے بتایا تھا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے وہ مشرق کی جانب ہے۔ پھر میں قاسم بن محمد سے ملا اور ان سے یہ حدیث فاطمہ ذکر کی انہوں نے فرمایا میں گواہی دیتاہوں کہ حضرت عائشہ نے مجھے بھی یہ حدیث اسی طرح سنائی تھی جیسے حضرت فاطمہ نے آپ کو سنائی ہے، البتہ انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ دونوں حرم یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دجال پر حرام ہوں گے۔
Top