مسند امام احمد - ام المؤمنین حضرت صفیہ کی حدیثیں - حدیث نمبر 25677
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي شُمَيْسَةُ أَوْ سُمَيَّةُ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ هُوَ فِي كِتَابِي سُمَيَّةُ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّ بِنِسَائِهِ فَلَمَّا كَانَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ نَزَلَ رَجُلٌ فَسَاقَ بِهِنَّ فَأَسْرَعَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَاكَ سَوْقُكَ بِالْقَوَارِيرِ يَعْنِي النِّسَاءَ فَبَيْنَا هُمْ يَسِيرُونَ بَرَكَ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ جَمَلُهَا وَكَانَتْ مِنْ أَحْسَنِهِنَّ ظَهْرًا فَبَكَتْ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُخْبِرَ بِذَلِكَ فَجَعَلَ يَمْسَحُ دُمُوعَهَا بِيَدِهِ وَجَعَلَتْ تَزْدَادُ بُكَاءً وَهُوَ يَنْهَاهَا فَلَمَّا أَكْثَرَتْ زَبَرَهَا وَانْتَهَرَهَا وَأَمَرَ النَّاسَ بِالنُّزُولِ فَنَزَلُوا وَلَمْ يَكُنْ يُرِيدُ أَنْ يَنْزِلَ قَالَتْ فَنَزَلُوا وَكَانَ يَوْمِي فَلَمَّا نَزَلُوا ضُرِبَ خِبَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَخَلَ فِيهِ قَالَتْ فَلَمْ أَدْرِ عَلَامَ أُهْجَمُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ فِي نَفْسِهِ شَيْءٌ مِنِّي فَانْطَلَقْتُ إِلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ لَهَا تَعْلَمِينَ أَنِّي لَمْ أَكُنْ أَبِيعُ يَوْمِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ أَبَدًا وَإِنِّي قَدْ وَهَبْتُ يَوْمِي لَكِ عَلَى أَنْ تُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِّي قَالَتْ نَعَمْ قَالَ فَأَخَذَتْ عَائِشَةُ خِمَارًا لَهَا قَدْ ثَرَدَتْهُ بِزَعْفَرَانٍ فَرَشَّتْهُ بِالْمَاءِ لِيُذَكِّيَ رِيحَهُ ثُمَّ لَبِسَتْ ثِيَابَهَا ثُمَّ انْطَلَقَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَفَعَتْ طَرَفَ الْخِبَاءِ فَقَالَ لَهَا مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ إِنَّ هَذَا لَيْسَ بِيَوْمِكِ قَالَتْ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ فَقَالَ مَعَ أَهْلِهِ فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الرَّوَاحِ قَالَ لِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ يَا زَيْنَبُ أَفْقِرِي أُخْتَكِ صَفِيَّةَ جَمَلًا وَكَانَتْ مِنْ أَكْثَرِهِنَّ ظَهْرًا فَقَالَتْ أَنَا أُفْقِرُ يَهُودِيَّتَكَ فَغَضِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْهَا فَهَجَرَهَا فَلَمْ يُكَلِّمْهَا حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ وَأَيَّامَ مِنًى فِي سَفَرِهِ حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ وَالْمُحَرَّمَ وَصَفَرَ فَلَمْ يَأْتِهَا وَلَمْ يَقْسِمْ لَهَا وَيَئِسَتْ مِنْهُ فَلَمَّا كَانَ شَهْرُ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ دَخَلَ عَلَيْهَا فَرَأَتْ ظِلَّهُ فَقَالَتْ إِنَّ هَذَا لَظِلُّ رَجُلٍ وَمَا يَدْخُلُ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنْ هَذَا فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَأَتْهُ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَصْنَعُ حِينَ دَخَلْتَ عَلَيَّ قَالَتْ وَكَانَتْ لَهَا جَارِيَةٌ وَكَانَتْ تَخْبَؤُهَا مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ فُلَانَةُ لَكَ فَمَشَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى سَرِيرِ زَيْنَبَ وَكَانَ قَدْ رُفِعَ فَوَضَعَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ أَصَابَ أَهْلَهُ وَرَضِيَ عَنْهُمْ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ سُمَيَّةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي سَفَرٍ فَاعْتَلَّ بَعِيرٌ لِصَفِيَّةَ فَذَكَرَ نَحْوَهُ
ام المؤمنین حضرت صفیہ کی حدیثیں
حضرت صفیہ سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ اپنی ازواج مطہرات کو بھی اپنے ساتھ لے کر گئے تھے، ابھی راستے ہی میں تھے کہ ایک آدمی اتر کر ازواج مطہرات کی سواریوں کو تیزی سے ہانکنے لگا، نبی ﷺ نے فرمایا ان آبگینوں (عورتوں) کو آہستہ ہی لے کر چلو دوران سفر حضرت صفیہ کا اونٹ بدک گیا، ان کی سواری سب سے عمدہ اور خوبصورت تھی، وہ رونے لگیں، نبی ﷺ کو معلوم ہوا تو تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے ان کے آنسو پونچھنے لگے، لیکن وہ اور زیادہ رونے لگیں، نبی ﷺ انہیں برابر منع کرتے رہے لیکن جب دیکھا کہ وہ زیادہ ہی روتی جا رہی ہیں تو نبی ﷺ نے انہیں سختی سے جھڑک کر منع فرمایا: اور لوگوں کو پڑاؤ کرنے کا حکم دیدیا حالانکہ اس مقام پر پڑاؤ کا ارادہ نہ تھا، لوگوں نے پڑاؤ ڈال لیا، اتفاق سے اس دن حضرت صفیہ ہی کی باری بھی تھی، نبی ﷺ کے لئے ایک خیمہ لگادیا گیا، نبی ﷺ اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔ حضرت صفیہ کہتی ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ نبی ﷺ کے پاس کیسے جاؤں؟ مجھے ڈر تھا کہ نبی ﷺ مجھ سے ناراض نہ ہوگئے ہوں، چناچہ میں حضرت عائشہ کے پاس چلی گئی اور ان سے کہا آپ جانتی ہیں کہ میں نبی ﷺ سے اپنی باری کا دن کسی بھی چیز کے عوض نہیں بیچ سکتی، لیکن آج میں اپنی باری کے دن آپ کو اس شرط پر دیتی ہوں کہ آپ نبی ﷺ کو مجھ سے راضی کردیں۔ حضرت عائشہ نے حامی بھرلی اور اپنا دوپٹہ لے کر جسے انہوں نے زعفران میں رنگا ہوا تھا، اس پر پانی کے چھینٹے مارے تاکہ اس کی مہک پھیل جائے پھر نئے کپڑے پہن کر نبی ﷺ کی طرف چل پڑیں نبی ﷺ کے خیمے کے قریب پہنچ کر انہوں نے پردے کا ایک کونا اٹھایا تو نبی ﷺ نے انہیں دیکھ کر فرمایا عائشہ! کیا بات ہے آج تمہاری باری تو نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطاء کردے نبی ﷺ نے وہ دوپہر اپنی زوجہ محترمہ (حضرت عائشہ) کے ساتھ قیلولہ فرمایا۔ جب روانگی کا وقت آیا تو نبی علیہ السلا نے حضرت زینب بنت جحش سے فرمایا جن کے پاس سواری میں گنجائش زیادہ تھی کہ اپنی بہن صفیہ کو اپنے ساتھ اونٹ پر سوار کرلو، حضرت زینب کے منہ سے نکل گیا کہ میں آپ کی یہودیہ بیوی کو اپنے ساتھ سوار کروں گی؟ نبی ﷺ یہ سن کرنا راض ہوگئے اور ان سے ترک کلام فرما لیا حتی کہ مکہ مکرمہ پہنچے، منیٰ کے میدان میں ایام گزارے پھر مدینہ منورہ واپس آئے محرم اور صفر کا مہینہ گزرا لیکن حضرت زینب کے پاس نہیں گئے حتی کہ باری کے دن بھی نہیں گئے، جس سے حضرت زینب ناامید سی ہوگئیں۔ جب ربیع الاول کا مہینہ آیا تو نبی ﷺ ان کے یہاں تشریف لے گئے، وہ سوچنے لگیں کہ یہ سایہ تو کسی آدمی کا ہے، نبی ﷺ میرے پاس آنے والے نہیں تو یہ کون ہے؟ اتنی دیر میں نبی ﷺ گھر کے اندر آگئے، حضرت زینب نبی ﷺ کو دیکھ کر کہنے لگیں یا رسول اللہ! خوشی سے مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کی تشریف آوری پر کیا کروں؟ ان کی ایک باندی تھی جو ان کے لئے خیمہ تیار کرتی تھی، انہوں نے عرض کیا کہ فلاں باندی آپ کی نذر پھر نبی ﷺ حضرت زینب کی چارپائی تک چل کر آئے اور اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا پھر ان سے تخلیہ فرمایا اور ان سے راضی ہوگئے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے
Top