مسند امام احمد - ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 23989
حَدَّثَنَا يَزِيدُ قَالَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ قَالَ أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ قَالَتْ خَرَجْتُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ أَقْفُو آثَارَ النَّاسِ قَالَتْ فَسَمِعْتُ وَئِيدَ الْأَرْضِ وَرَائِي يَعْنِي حِسَّ الْأَرْضِ قَالَتْ فَالْتَفَتُّ فَإِذَا أَنَا بِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ وَمَعَهُ ابْنُ أَخِيهِ الْحَارِثُ بْنُ أَوْسٍ يَحْمِلُ مِجَنَّهُ قَالَتْ فَجَلَسْتُ إِلَى الْأَرْضِ فَمَرَّ سَعْدٌ وَعَلَيْهِ دِرْعٌ مِنْ حَدِيدٍ قَدْ خَرَجَتْ مِنْهَا أَطْرَافُهُ فَأَنَا أَتَخَوَّفُ عَلَى أَطْرَافِ سَعْدٍ قَالَتْ وَكَانَ سَعْدٌ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ وَأَطْوَلِهِمْ قَالَتْ فَمَرَّ وَهُوَ يَرْتَجِزُ وَيَقُولُ لَيْتَ قَلِيلًا يُدْرِكُ الْهَيْجَا جَمَلْ مَا أَحْسَنَ الْمَوْتَ إِذَا حَانَ الْأَجَلْ قَالَتْ فَقُمْتُ فَاقْتَحَمْتُ حَدِيقَةً فَإِذَا فِيهَا نَفَرٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَإِذَا فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَفِيهِمْ رَجُلٌ عَلَيْهِ سَبْغَةٌ لَهُ يَعْنِي مِغْفَرًا فَقَالَ عُمَرُ مَا جَاءَ بِكِ لَعَمْرِي وَاللَّهِ إِنَّكِ لَجَرِيئَةٌ وَمَا يُؤْمِنُكِ أَنْ يَكُونَ بَلَاءٌ أَوْ يَكُونَ تَحَوُّزٌ قَالَتْ فَمَا زَالَ يَلُومُنِي حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنَّ الْأَرْضَ انْشَقَّتْ لِي سَاعَتَئِذٍ فَدَخَلْتُ فِيهَا قَالَتْ فَرَفَعَ الرَّجُلُ السَّبْغَةَ عَنْ وَجْهِهِ فَإِذَا طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ فَقَالَ يَا عُمَرُ وَيْحَكَ إِنَّكَ قَدْ أَكْثَرْتَ مُنْذُ الْيَوْمَ وَأَيْنَ التَّحَوُّزُ أَوْ الْفِرَارُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَتْ وَيَرْمِي سَعْدًا رَجُلٌ مِنْ الْمُشْرِكِينَ مِنْ قُرَيْشٍ يُقَالُ لَهُ ابْنُ الْعَرِقَةِ بِسَهْمٍ لَهُ فَقَالَ لَهُ خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْعَرَقَةِ فَأَصَابَ أَكْحَلَهُ فَقَطَعَهُ فَدَعَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ سَعْدٌ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَا تُمِتْنِي حَتَّى تُقِرَّ عَيْنِي مِنْ قُرَيْظَةَ قَالَتْ وَكَانُوا حُلَفَاءَهُ وَمَوَالِيَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ قَالَتْ فَرَقَى كَلْمُهُ وَبَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الرِّيحَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ فَكَفَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَوِيًّا عَزِيزًا فَلَحِقَ أَبُو سُفْيَانَ وَمَنْ مَعَهُ بِتِهَامَةَ وَلَحِقَ عُيَيْنَةُ بْنُ بَدْرٍ وَمَنْ مَعَهُ بِنَجْدٍ وَرَجَعَتْ بَنُو قُرَيْظَةَ فَتَحَصَّنُوا فِي صَيَاصِيهِمْ وَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَوَضَعَ السِّلَاحَ وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ فَضُرِبَتْ عَلَى سَعْدٍ فِي الْمَسْجِدِ قَالَتْ فَجَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام وَإِنَّ عَلَى ثَنَايَاهُ لَنَقْعُ الْغُبَارِ فَقَالَ أَقَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ وَاللَّهِ مَا وَضَعَتْ الْمَلَائِكَةُ بَعْدُ السِّلَاحَ اخْرُجْ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ فَقَاتِلْهُمْ قَالَتْ فَلَبِسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأْمَتَهُ وَأَذَّنَ فِي النَّاسِ بِالرَّحِيلِ أَنْ يَخْرُجُوا فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرَّ عَلَى بَنِي غَنْمٍ وَهُمْ جِيرَانُ الْمَسْجِدِ حَوْلَهُ فَقَالَ مَنْ مَرَّ بِكُمْ فَقَالُوا مَرَّ بِنَا دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ وَكَانَ دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ تُشْبِهُ لِحْيَتُهُ وَسِنُّهُ وَوَجْهُهُ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَتْ فَأَتَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَاصَرَهُمْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً فَلَمَّا اشْتَدَّ حَصْرُهُمْ وَاشْتَدَّ الْبَلَاءُ قِيلَ لَهُمْ انْزِلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَشَارُوا أَبَا لُبَابَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُنْذِرِ فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنَّهُ الذَّبْحُ قَالُوا نَنْزِلُ عَلَى حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْزِلُوا عَلَى حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَنَزَلُوا وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَأُتِيَ بِهِ عَلَى حِمَارٍ عَلَيْهِ إِكَافٌ مِنْ لِيفٍ قَدْ حُمِلَ عَلَيْهِ وَحَفَّ بِهِ قَوْمُهُ فَقَالُوا يَا أَبَا عَمْرٍو حُلَفَاؤُكَ وَمَوَالِيكَ وَأَهْلُ النِّكَايَةِ وَمَنْ قَدْ عَلِمْتَ قَالَتْ وَأَنَّى لَا يُرْجِعُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِمْ حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْ دُورِهِمْ الْتَفَتَ إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ قَدْ آنَ لِي أَنْ لَا أُبَالِيَ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ قَالَ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ فَلَمَّا طَلَعَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ فَأَنْزَلُوهُ فَقَالَ عُمَرُ سَيِّدُنَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ أَنْزِلُوهُ فَأَنْزَلُوهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْكُمْ فِيهِمْ قَالَ سَعْدٌ فَإِنِّي أَحْكُمُ فِيهِمْ أَنْ تُقْتَلَ مُقَاتِلَتُهُمْ وَتُسْبَى ذَرَارِيُّهُمْ وَتُقْسَمَ أَمْوَالُهُمْ وَقَالَ يَزِيدُ بِبَغْدَادَ وَيُقْسَمُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحُكْمِ رَسُولِهِ قَالَتْ ثُمَّ دَعَا سَعْدٌ قَالَ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ أَبْقَيْتَ عَلَى نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حَرْبِ قُرَيْشٍ شَيْئًا فَأَبْقِنِي لَهَا وَإِنْ كُنْتَ قَطَعْتَ الْحَرْبَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ قَالَتْ فَانْفَجَرَ كَلْمُهُ وَكَانَ قَدْ بَرِئَ حَتَّى مَا يُرَى مِنْهُ إِلَّا مِثْلُ الْخُرْصِ وَرَجَعَ إِلَى قُبَّتِهِ الَّتِي ضَرَبَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ عَائِشَةُ فَحَضَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ قَالَتْ فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنِّي لَأَعْرِفُ بُكَاءَ عُمَرَ مِنْ بُكَاءِ أَبِي بَكْرٍ وَأَنَا فِي حُجْرَتِي وَكَانُوا كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ قَالَ عَلْقَمَةُ قُلْتُ أَيْ أُمَّهْ فَكَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ قَالَتْ كَانَتْ عَيْنُهُ لَا تَدْمَعُ عَلَى أَحَدٍ وَلَكِنَّهُ كَانَ إِذَا وَجِدَ فَإِنَّمَا هُوَ آخِذٌ بِلِحْيَتِهِ
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی مرویات
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ میں غزوہ خندق کے موقع پر لوگوں کے نشانات قدم کی پیروی کرتے ہوئے نکلی، میں نے اپنے پیچھے زمین کے چیرنے کی آواز سنی، میں نے پلٹ کر دیکھا تو اچانک میرے سامنے سعد بن معاذ ؓ آگئے، ان کے ساتھ ان کا بھتیجا حارث بن اوس تھا جو ڈھال اٹھائے ہوئے تھا، میں زمین پر بیٹھ گئی، حضرت سعد ؓ وہاں سے گذر گئے، انہوں نے لوہے کی زرہ پہن رکھی تھی اس سے ان کے اعضاء باہر نکلے ہوئے تھے جن کے متعلق مجھے نقصان کا اندیشہ ہونے لگا، کیونکہ حضرت سعد ؓ تمام لوگوں میں عظیم تر اور طویل تر تھے، وہ میرے قریب سے گذرتے ہوئے یہ رجزیہ شعر پڑھ رہے تھے تھوڑی دیر انتطار کرو، لڑائی اپنا بوجھ اٹھائے گی اور وہ موت کتنی اچھی ہے جو وقت مقررہ پر آجائے۔ اس کے بعد میں وہاں سے اٹھی اور ایک باغ میں گھس گئی، دیکھا کہ وہاں مسلمانوں کی جماعت موجود ہے، جس میں حضرت عمر فاروق ؓ بھی شامل ہیں اور ان میں سے ایک آدمی کے سر پر خود بھی ہے، حضرت عمر ؓ نے مجھے دیکھ کر فرمایا تم کیوں آئی ہو؟ واللہ تم بڑی جری ہو، تم اس چیز سے کیسے بےخطر ہوگئی ہو کہ کوئی مصیبت آجائے یا کوئی تمہیں پکڑ کرلے جائے؟ وہ مجھے مسلسل ملامت کرتے رہے حتیٰ کہ میں تمنا کرنے لگی کہ اس وقت زمین پھٹے اور میں اس میں سما جاؤں، اسی دوران اس آدمی نے اپنے چہرے سے خود ہٹایا تو وہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ تھے، وہ کہنے لگے ارے عمر! آج تو تم نے بہت ہی حد کردی، اللہ کے علاوہ کہاں جانا ہے اور کہاں پکڑ کر جمع ہونا ہے۔ پھر حضرت سعد ؓ پر مشرکین قریش میں سے ایک آدمی " جس کا نام ابن عرقہ تھا " تیر برسانے لگا اور کہنے لگا کہ یہ نشانہ روکو کہ میں ابن عرقہ ہوں، وہ تیر حضرت سعد ؓ کے بازو کی رگ میں لگا اور اسے کاٹ گیا، حضرت سعد ؓ نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ! مجھے اس وقت تک موت نہ دیجئے گا جب تک میری آنکھیں بنو قریظہ کے معاملے میں ٹھندی نہ ہوجائیں، بنو قریظہ کے لوگ زمانہ جاہلیت میں ان کے حلیف اور آزاد کردہ غلام تھے، بہر حال! ان کا زخم بھر گیا اور اللہ نے مشرکین پر آندھی مسلط کردی اور لڑائی سے مسلمانوں کی کفایت فرمالی اور اللہ طاقتور غالب ہے۔ اس طرح ابو سفیان اور اس کے ساتھی تہامہ واپس جلے گئے، عیینہ بن بدر اور اس کے ساتھی نجد چلے گئے، بنو قریظہ واپس اپنے قلعوں میں قلعہ بند ہوگئے اور نبی ﷺ مدینہ منورہ واپس آگئے اور اسلحہ اتار کر حکم دیا کہ چمڑے کا ایک خیمہ مسجد میں سعد کے لئے لگا دیا جائے، اسی دوران حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آئے، غبار جن کے دانتوں پر اپنے آثار دکھا رہا تھا، وہ کہنے لگے کہ کیا آپ نے اسلحہ اتار کر رکھ دیا؟ واللہ ملائکہ نے تو ابھی تک اپنا اسلحہ نہیں اتارا، بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوجائے اور ان سے قتال کیجئے چناچہ نبی ﷺ نے اپنی زرہ پہنی اور لوگوں میں کوچ کی منادی کرادی اور روانہ ہوگئے۔ راستے میں نبی ﷺ کا گزر بنوغنم پر ہوا جو کہ مسجد نبوی کے آس پاس رہنے والے پڑوسی تھے، نبی ﷺ نے پوچھا کہ ابھی تمہارے پاس سے کوئی گذر کرگیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس سے دحیہ کلبی گذر کرگئے ہیں، دراصل حضرت دحیہ کلبی ؓ کی ڈاڑھی، دانت اور چہرہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے مشابہہ تھا، پھر نبی ﷺ نے بنو قریظہ کے قریب پہنچ کر اس کا محاصرہ کرلیا اور پچیس دن تک محاصرہ جاری رکھا، جب یہ محاصرہ سخت ہوا اور ان کی پریشانیوں میں اضافہ ہونے لگا تو انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ نبی ﷺ کے فیصلے پر ہتھیار ڈال دو، انہوں نے حضرت ابو لبابہ ؓ سے اس سلسلے میں مشورہ مانگا تو انہوں نے اشارے سے بتایا کہ انہیں قتل کردیا جائے گا، اس پر وہ کہنے لگے کہ ہم سعد بن معاذ کے فیصلے پر ہتھیار ڈالتے ہیں، نبی ﷺ نے ان کی یہ بات مان لی انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے۔ نبی ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ ؓ کو بلا بھیجا، انہیں ایک گدھے پر سوار کرکے لایا گیا جس پر کھجور کی چھال کا پالان پڑا ہوا تھا، ان کی قوم کے لوگوں نے انہیں گھیر رکھا تھا اور وہ ان سے کہہ رہے تھے کہ اے ابو عمر! یہ تمہارے ہی حلیف، آزاد کردہ غلام اور کمزور لوگ ہیں اور وہ جنہیں تم جانتے ہو، لیکن وہ انہیں کچھ جواب دے رہے تھے اور نہ ہی ان کی طرف توجہ کر رہے تھے، جب وہ ان کے گھروں کے قریب پہنچ گئے تو اپنے قوم کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا اب وہ وقت آیا ہے کہ میں اللہ کے بارے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کوئی پرواہ نہ کروں، جب وہ نبی ﷺ کے قریب پہنچے تو نبی ﷺ نے فرمایا اپنے سردار کے لئے کھڑے ہوجاؤ انہیں سواری سے اتارو، حضرت عمر ؓ کہنے لگے کہ ہمارا آقا تو اللہ تعالیٰ ہے، نبی ﷺ نے فرمایا انہیں اتارو، لوگوں نے انہیں اتارا، نبی ﷺ نے فرمایا ان کے متعلق فیصلہ کرو، انہوں نے کہا کہ میں ان کے متعلق یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے جنگجو افراد قتل کئے جائیں ان کے بچے قید کر لئے جائیں اور ان کا مال و دولت تقسیم کرلیا جائے، نبی ﷺ نے فرمایا تم نے اللہ اور رسول کے فیصلے کے مطابق ان کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پھر حضرت سعد ؓ نے دعا کی کہ اے اللہ اگر تو نے اپنے نبی ﷺ سے قریش کی جنگوں کا کچھ حصہ باقی رکھا ہے تو مجھے زندہ رکھ اور اگر تو نے اپنے نبی ﷺ اور قریش کے درمیان جنگوں کا سلسلہ ختم کردیا ہے تو مجھے اپنے پاس بلالے، قبل ازیں وہ تندرست ہوچکے تھے اور صرف ایک بالی کے برابر زخم دکھائی دے رہا تھا لیکن یہ دعا کرتے ہوئے وہ زخم دوبارہ پھوٹ پڑا اور وہ اپنے اس خیمے میں واپس چلے گئے جو نبی ﷺ نے مسجد نبوی میں ان کے لئے لگوایا تھا، نبی ﷺ اور حضرت ابو بکروعمر ؓ ان کے پاس تشریف لائے، اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے میں اپنے حجرے کے اندر حضرت عمر اور حضرت ابوبکر ؓ کے رونے کی آواز میں امتیاز کر رہی تھی اور یہ لوگ اسی طرح تھے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ " ہ آپس میں رحم دل ہیں۔ علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا اماں جان! نبی ﷺ کی اس وقت کیا کیفیت تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ کسی پر آنسو نہیں بہاتے تھے، البتہ جب بہت غمگین ہوتے تو اپنی ڈاڑھی مبارک کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے تھے۔
Top