صحیح مسلم - نذر کا بیان - حدیث نمبر 4245
و حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ کَانَتْ ثَقِيفُ حُلَفَائَ لِبَنِی عُقَيْلٍ فَأَسَرَتْ ثَقِيفُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ وَأَصَابُوا مَعَهُ الْعَضْبَائَ فَأَتَی عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْوَثَاقِ قَالَ يَا مُحَمَّدُ فَأَتَاهُ فَقَالَ مَا شَأْنُکَ فَقَالَ بِمَ أَخَذْتَنِي وَبِمَ أَخَذْتَ سَابِقَةَ الْحَاجِّ فَقَالَ إِعْظَامًا لِذَلِکَ أَخَذْتُکَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِکَ ثَقِيفَ ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ فَنَادَاهُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَقِيقًا فَرَجَعَ إِلَيْهِ فَقَالَ مَا شَأْنُکَ قَالَ إِنِّي مُسْلِمٌ قَالَ لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِکُ أَمْرَکَ أَفْلَحْتَ کُلَّ الْفَلَاحِ ثُمَّ انْصَرَفَ فَنَادَاهُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ فَأَتَاهُ فَقَالَ مَا شَأْنُکَ قَالَ إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي وَظَمْآنُ فَأَسْقِنِي قَالَ هَذِهِ حَاجَتُکَ فَفُدِيَ بِالرَّجُلَيْنِ قَالَ وَأُسِرَتْ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَأُصِيبَتْ الْعَضْبَائُ فَکَانَتْ الْمَرْأَةُ فِي الْوَثَاقِ وَکَانَ الْقَوْمُ يُرِيحُونَ نَعَمَهُمْ بَيْنَ يَدَيْ بُيُوتِهِمْ فَانْفَلَتَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ مِنْ الْوَثَاقِ فَأَتَتْ الْإِبِلَ فَجَعَلَتْ إِذَا دَنَتْ مِنْ الْبَعِيرِ رَغَا فَتَتْرُکُهُ حَتَّی تَنْتَهِيَ إِلَی الْعَضْبَائِ فَلَمْ تَرْغُ قَالَ وَنَاقَةٌ مُنَوَّقَةٌ فَقَعَدَتْ فِي عَجُزِهَا ثُمَّ زَجَرَتْهَا فَانْطَلَقَتْ وَنَذِرُوا بِهَا فَطَلَبُوهَا فَأَعْجَزَتْهُمْ قَالَ وَنَذَرَتْ لِلَّهِ إِنْ نَجَّاهَا اللَّهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا فَلَمَّا قَدِمَتْ الْمَدِينَةَ رَآهَا النَّاسُ فَقَالُوا الْعَضْبَائُ نَاقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ إِنَّهَا نَذَرَتْ إِنْ نَجَّاهَا اللَّهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرُوا ذَلِکَ لَهُ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ بِئْسَمَا جَزَتْهَا نَذَرَتْ لِلَّهِ إِنْ نَجَّاهَا اللَّهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا لَا وَفَائَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةٍ وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِکُ الْعَبْدُ وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ حُجْرٍ لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ
اللہ کی نا فرمانی کی نذر پورا نہ کرے اور جس پر قادر نہ ہو اسے پورا نہ کرنے کا بیان
زہیر بن حرب، علی بن حجر سعدی، زہیر، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، ابی قلابہ، ابی المہلب، حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ثقیف، بنوعقیل کے حلیف تھے ثقیف نے اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے دو آدمیوں کو قید کرلیا اور اصحاب رسول اللہ ﷺ نے بنی عقیل میں سے آدمی کو قید کرلیا اور اس کے ساتھ عضباء اونٹنی کو بھی گرفتار کیا۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ بندھا ہوا تھا۔ اس نے کہا اے محمد ﷺ! آپ ﷺ اس کے پاس آئے اور اس سے کہا کیا بات ہے؟ تو اس نے عرض کیا آپ ﷺ نے مجھے کیوں پکڑا اور کس وجہ سے حاجیوں (کی اونٹنیوں) پر سبقت لے جانے والی (او نٹنی) کو گرفتار کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا اس بڑے قصور کی وجہ سے میں نے تجھے تمہارے حلیف ثقیف کے بدلے گرفتار کیا ہے۔ پھر آپ اس سے لوٹے تو اس نے آپ ﷺ کو اے محمد! اے محمد! کہہ کر پکارا اور رسول اللہ ﷺ مہربان اور نرم دل تھے آپ اس کی طرف لوٹے تو پھر فرمایا کیا بات ہے تو اس نے کہا میں مسلمان ہوں آپ نے فرمایا کاش تو یہ بات اس وقت کہتا جب تو اپنے معاملہ کا مکمل طور پر مالک تھا تو تو پوری کامیابی حاصل کرچکا ہوتا یہ کہہ کر آپ ﷺ پھر لوٹے تو اس نے آپ ﷺ کو یا محمد! یا محمد کہہ کر پکارا۔ آپ ﷺ اس کے پاس آئے اور فرمایا کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا میں بھوکا ہوں مجھے کھلائیے اور میں پیاسا ہو مجھے پلائے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ تیری حاجت و ضرورت ہے یعنی اسے کھلایا اور پلایا۔ پھر اسے ان دو آدمیوں کا فدیہ بنایا گیا۔ (جنہیں ثقیف نے گرفتار کیا تھا) راوی کہتا ہے کہ انصار میں سے ایک عورت اور عضباء (اونٹنی) گرفتار کرلی گئی اور وہ عورت بندھی ہوئی تھی اور قوم کے لوگ اپنے گھروں کے سامنے اپنے جانوروں کو آرام دے رہے تھے ایک دن وہ گرفتاری سے بھاگ نکلی اور اونٹوں کے پاس آئی جب وہ کسی اونٹ کے پاس جاتی وہ آواز نکالتا تو وہ اسے چھوڑ دیتی یہاں تک کہ وہ عضباء تک پہنچی تو اس نے آواز نہ کی اور وہ اونٹنی نہایت مسکین تھی تو وہ عورت اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئی پھر اسے ڈانٹا تو چل دی۔ کافروں کو خبر ہوئی۔ وہ اس کی تلاش میں نکلے تو عضباء نے ان کو عاجز کردیا۔ راوی کہتا ہے اور اس نے اللہ کے لئے نذر مانی کہ اگر اس عضباء نے اسے نجات دلا دی تو وہ اس ناقہ کو قربان کر دے گی جب وہ مدینہ آئی اور لوگوں نے اسے دیکھا تو انہوں نے کہا یہ عضباء تو رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی ہے۔ تو اس عورت نے کہا کہ اس (میں) نے نذر مانی ہے کہ اگر اللہ اسے اس اونٹنی کے ساتھ نجات دے تو اسے نحر کرے گی۔ صحابہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اللہ پاک ہے اس عورت نے اس اونٹنی کو برا بدلہ دیا کہ اس نے اللہ کے لئے نذر مانی اگر اللہ اسے اس پر سوار ہونے کی صورت میں نجات دے تو وہ اسے نحر کرے گی۔ نافرمانی کے لئے مانی جانے والی نذر کا پورا کرنا ضر روی نہیں اور نہ ہی اس چیز کی نذر جس کا انسان مالک نہیں ہے اور ابن حجر کی روایت میں ہے اللہ کی نافرمانی میں نذر نہیں ہے۔
Top