صحیح مسلم - طلاق کا بیان - حدیث نمبر 3692
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ أَخْبَرَنِي يَحْيَی أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ بْنُ حُنَيْنٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ قَالَ مَکَثْتُ سَنَةً وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ آيَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً لَهُ حَتَّی خَرَجَ حَاجًّا فَخَرَجْتُ مَعَهُ فَلَمَّا رَجَعَ فَکُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَی الْأَرَاکِ لِحَاجَةٍ لَهُ فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّی فَرَغَ ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَزْوَاجِهِ فَقَالَ تِلْکَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ وَاللَّهِ إِنْ کُنْتُ لَأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَکَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَکَ قَالَ فَلَا تَفْعَلْ مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عِنْدِي مِنْ عِلْمٍ فَسَلْنِي عَنْهُ فَإِنْ کُنْتُ أَعْلَمُهُ أَخْبَرْتُکَ قَالَ وَقَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ إِنْ کُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَائِ أَمْرًا حَتَّی أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ وَقَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ قَالَ فَبَيْنَمَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَأْتَمِرُهُ إِذْ قَالَتْ لِي امْرَأَتِي لَوْ صَنَعْتَ کَذَا وَکَذَا فَقُلْتُ لَهَا وَمَا لَکِ أَنْتِ وَلِمَا هَاهُنَا وَمَا تَکَلُّفُکِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ فَقَالَتْ لِي عَجَبًا لَکَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ وَإِنَّ ابْنَتَکَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ قَالَ عُمَرُ فَآخُذُ رِدَائِي ثُمَّ أَخْرُجُ مَکَانِي حَتَّی أَدْخُلَ عَلَی حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَهَا يَا بُنَيَّةُ إِنَّکِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ فَقَالَتْ حَفْصَةُ وَاللَّهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ فَقُلْتُ تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُکِ عُقُوبَةَ اللَّهِ وَغَضَبَ رَسُولِهِ يَا بُنَيَّةُ لَا يَغُرَّنَّکِ هَذِهِ الَّتِي قَدْ أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا وَحُبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّی أَدْخُلَ عَلَی أُمِّ سَلَمَةَ لِقَرَابَتِي مِنْهَا فَکَلَّمْتُهَا فَقَالَتْ لِي أُمُّ سَلَمَةَ عَجَبًا لَکَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ قَدْ دَخَلْتَ فِي کُلِّ شَيْئٍ حَتَّی تَبْتَغِيَ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ قَالَ فَأَخَذَتْنِي أَخْذًا کَسَرَتْنِي عَنْ بَعْضِ مَا کُنْتُ أَجِدُ فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهَا وَکَانَ لِي صَاحِبٌ مِنْ الْأَنْصَارِ إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالْخَبَرِ وَإِذَا غَابَ کُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ وَنَحْنُ حِينَئِذٍ نَتَخَوَّفُ مَلِکًا مِنْ مُلُوکِ غَسَّانَ ذُکِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسِيرَ إِلَيْنَا فَقَدْ امْتَلَأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ فَأَتَی صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ وَقَالَ افْتَحْ افْتَحْ فَقُلْتُ جَائَ الْغَسَّانِيُّ فَقَالَ أَشَدُّ مِنْ ذَلِکَ اعْتَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْوَاجَهُ فَقُلْتُ رَغِمَ أَنْفُ حَفْصَةَ وَعَائِشَةَ ثُمَّ آخُذُ ثَوْبِي فَأَخْرُجُ حَتَّی جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يُرْتَقَی إِلَيْهَا بِعَجَلَةٍ وَغُلَامٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْوَدُ عَلَی رَأْسِ الدَّرَجَةِ فَقُلْتُ هَذَا عُمَرُ فَأُذِنَ لِي قَالَ عُمَرُ فَقَصَصْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّهُ لَعَلَی حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْئٌ وَتَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ وَإِنَّ عِنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَضْبُورًا وَعِنْدَ رَأْسِهِ أُهُبًا مُعَلَّقَةً فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَکَيْتُ فَقَالَ مَا يُبْکِيکَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ کِسْرَی وَقَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُونَ لَهُمَا الدُّنْيَا وَلَکَ الْآخِرَةُ
ایلاء اور عورتوں سے جدا ہونے اور انہیں اختیار دینے اور اللہ کے قول ان تظاہرا علیہ کے بیان میں
ہارون بن سعید ایلی، عبداللہ بن وہب، سلیمان ابن بلال، یحیی، عبید بن حنین، ابن عباس، حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ میں ایک سال تک ارادہ کرتا رہا کہ میں عمر بن خطاب سے اس آیت کے بارے میں پوچھوں لیکن ان کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی طاقت نہ رکھتا تھا جب ہم لوٹے تو کسی راستہ میں وہ ایک بار پیلو کے درختوں کی طرف قضائے حاجت کے لئے جھکے اور میں ان کے لئے ٹھہر گیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہوئے پھر میں ان کے ساتھ چلا تو میں نے کہا اے امیر المومنین! آپ ﷺ کی ازواج میں سے کون ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ پر زور ڈالا تو انہوں نے کہا وہ حفصہ اور عائشہ تھیں میں نے ان سے کہا اللہ کی قسم اگر میں چاہتا تو آپ سے اس بارے میں ایک سال پہلے پوچھ لیتا لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے ہمت نہ رکھتا تھا انہوں نے کہا ایسا نہ کرو جو تجھے اندازہ ہو کہ اس کا علم میرے پاس ہے تو اس بارے میں مجھ سے پوچھ لیا کرو اگر میں اسے جانتا ہوا تو تجھے خبر دے دوں گا اور عمر ؓ نے کہا اللہ کی قسم! جب ہم جاہلیت میں تھے تو عورتوں کے بارے میں کسی امر کو شمار نہ کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے ان کے بارے میں اپنے احکام نازل فرمائے اور ان کے لئے باری مقرر کی جو مقرر کی چناچہ ایک دن میں کسی کام میں مشورہ کر رہا تھا میری بیوی نے مجھے کہا اگر آپ اس طرح کرلیتے میں نے اس سے کہا تجھے میرے کام میں کیا ہے اور یہاں کہاں؟ اور میں جس کام کا ارادہ کرتا ہوں تجھ پر اس کا بوجھ نہیں ڈالتا اس نے کہا اے ابن خطاب! تعجب ہے آپ پر آپ نہیں چاہتے کہ آپ کو کوئی جواب دیا جائے حالانکہ آپ کی بیٹی رسول اللہ ﷺ کو جواب دیتی ہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کا پورا دن غصہ کی حالت میں گزرتا ہے عمر ؓ نے کہا پھر میں نے اپنی چادر لی اور میں اپنے گھر سے نکلا یہاں تک کہ حفصہ کے پاس پہنچا تو اس سے کہا اے میری بیٹی کیا تو رسول اللہ ﷺ کو جواب دیتی ہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کا دن غصہ میں گزرتا ہے حفصہ نے کہا اللہ کی قسم میں آپ ﷺ کو جواب دیتی ہوں میں نے کہا جان لے کہ میں تجھے اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے غصہ سے اے میری بیٹی تجھے اس بیوی کا حسن اور رسول اللہ ﷺ کی محبت دھوکے میں نہ ڈالے پھر میں نکلا یہاں تک کہ ام سلمہ کے پاس اپنی رشتہ داری کی وجہ سے گیا میں نے اس سے گفتگو کی تو انہوں نے مجھے کہا اے ابن خطاب تجھ پر تعجب ہے کہ تم ہر معاملہ میں دخل اندازی کرتے ہو یہاں تک چاہتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج کے معاملہ میں بھی دخل دوں مجھے ان کی اس بات سے اس قدر دکھ ہوا کہ مجھے اس غم نے اس نصیحت سے بھی روک دیا جو میں انہیں چاہتا تھا میں ان کے پاس سے نکلا اور میرے ساتھ ایک انصاری رفیق تھا جب میں آپ ﷺ کی مجلس سے غائب ہوتا تو وہ میرے پاس خبر لاتا اور جب وہ غائب ہوتا تو میں اسے خبر پہنچاتا اور ان دنوں ہم شاہاں غسان میں سے ایک بادشاہ کے حملے سے ڈرتے تھے ہمیں ذکر کیا گیا کہ وہ ہماری طرف چلنے والا ہے تحقیق ہمارے سینے اس کے خوف سے بھرے ہوئے تھے کہ میرے انصاری ساتھی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو تو میں نے کہا کیا غسانی آگیا؟ اس نے کہا اس سے سخت معاملہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں سے علیحدہ ہوگئے ہیں میں نے کہا حفصہ اور عائشہ کی ناک خاک آلود ہو پھر میں نے اپنا کپڑا لیا باہر نکلا اور نبی ﷺ کے پاس آیا تو رسول اللہ ﷺ اپنے بالا خانہ میں تشریف فرما تھے اور اس پر ایک کھجور کی جڑ کے ذریعے چڑھتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کا ایک سیاہ فام غلام اس کے کنارے پر تھا میں نے کہا یہ عمر ہے میرے لئے اجازت لو حضرت عمر نے رسول اللہ ﷺ سے سارا واقعہ بیان کیا جب میں ام سلمہ ؓ کی بات پر پہنچا تو رسول اللہ ﷺ نے تبسم فرمایا اور آپ ﷺ ایک چٹائی پر تھے آپ ﷺ کے سر مبارک کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جو کھجور کے چھلکے سے بھرا ہوا تھا اور آپ ﷺ کے پاؤں کے پاس سلم جس سے چمڑے کو رنگا جاتا ہے کے پتے تھے اور آپ ﷺ کی سر کی طرف ایک کچا چمڑا لٹکا ہوا تھا میں نے رسول اللہ ﷺ کے پہلو پر چٹائی کے نشان دیکھے تو میں رو دیا آپ ﷺ نے فرمایا تجھے کس چیز نے رلا دیا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول قیصر و کسریٰ کیسے عیش و عشرت میں ہیں اور آپ ﷺ تو اللہ کے رسول ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ ان کے لئے دنیا اور تمہارے لئے آخرت ہے۔
Top