صحیح مسلم - طلاق کا بیان - حدیث نمبر 3691
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنَا عِکْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ عَنْ سِمَاکٍ أَبِي زُمَيْلٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ لَمَّا اعْتَزَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَائَهُ قَالَ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا النَّاسُ يَنْکُتُونَ بِالْحَصَی وَيَقُولُونَ طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَائَهُ وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ يُؤْمَرْنَ بِالْحِجَابِ فَقَالَ عُمَرُ فَقُلْتُ لَأَعْلَمَنَّ ذَلِکَ الْيَوْمَ قَالَ فَدَخَلْتُ عَلَی عَائِشَةَ فَقُلْتُ يَا بِنْتَ أَبِي بَکْرٍ أَقَدْ بَلَغَ مِنْ شَأْنِکِ أَنْ تُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ مَا لِي وَمَا لَکَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ عَلَيْکَ بِعَيْبَتِکَ قَالَ فَدَخَلْتُ عَلَی حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ فَقُلْتُ لَهَا يَا حَفْصَةُ أَقَدْ بَلَغَ مِنْ شَأْنِکِ أَنْ تُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُحِبُّکِ وَلَوْلَا أَنَا لَطَلَّقَکِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَکَتْ أَشَدَّ الْبُکَائِ فَقُلْتُ لَهَا أَيْنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ هُوَ فِي خِزَانَتِهِ فِي الْمَشْرُبَةِ فَدَخَلْتُ فَإِذَا أَنَا بِرَبَاحٍ غُلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدًا عَلَی أُسْکُفَّةِ الْمَشْرُبَةِ مُدَلٍّ رِجْلَيْهِ عَلَی نَقِيرٍ مِنْ خَشَبٍ وَهُوَ جِذْعٌ يَرْقَی عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَنْحَدِرُ فَنَادَيْتُ يَا رَبَاحُ اسْتَأْذِنْ لِي عِنْدَکَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ رَبَاحٌ إِلَی الْغُرْفَةِ ثُمَّ نَظَرَ إِلَيَّ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا ثُمَّ قُلْتُ يَا رَبَاحُ اسْتَأْذِنْ لِي عِنْدَکَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ رَبَاحٌ إِلَی الْغُرْفَةِ ثُمَّ نَظَرَ إِلَيَّ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا ثُمَّ رَفَعْتُ صَوْتِي فَقُلْتُ يَا رَبَاحُ اسْتَأْذِنْ لِي عِنْدَکَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنِّي أَظُنُّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَنَّ أَنِّي جِئْتُ مِنْ أَجْلِ حَفْصَةَ وَاللَّهِ لَئِنْ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضَرْبِ عُنُقِهَا لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَهَا وَرَفَعْتُ صَوْتِي فَأَوْمَأَ إِلَيَّ أَنْ ارْقَهْ فَدَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَی حَصِيرٍ فَجَلَسْتُ فَأَدْنَی عَلَيْهِ إِزَارَهُ وَلَيْسَ عَلَيْهِ غَيْرُهُ وَإِذَا الْحَصِيرُ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ فَنَظَرْتُ بِبَصَرِي فِي خِزَانَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَنَا بِقَبْضَةٍ مِنْ شَعِيرٍ نَحْوِ الصَّاعِ وَمِثْلِهَا قَرَظًا فِي نَاحِيَةِ الْغُرْفَةِ وَإِذَا أَفِيقٌ مُعَلَّقٌ قَالَ فَابْتَدَرَتْ عَيْنَايَ قَالَ مَا يُبْکِيکَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَمَا لِي لَا أَبْکِي وَهَذَا الْحَصِيرُ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِکَ وَهَذِهِ خِزَانَتُکَ لَا أَرَی فِيهَا إِلَّا مَا أَرَی وَذَاکَ قَيْصَرُ وَکِسْرَی فِي الثِّمَارِ وَالْأَنْهَارِ وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفْوَتُهُ وَهَذِهِ خِزَانَتُکَ فَقَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أَلَا تَرْضَی أَنْ تَکُونَ لَنَا الْآخِرَةُ وَلَهُمْ الدُّنْيَا قُلْتُ بَلَی قَالَ وَدَخَلْتُ عَلَيْهِ حِينَ دَخَلْتُ وَأَنَا أَرَی فِي وَجْهِهِ الْغَضَبَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يَشُقُّ عَلَيْکَ مِنْ شَأْنِ النِّسَائِ فَإِنْ کُنْتَ طَلَّقْتَهُنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مَعَکَ وَمَلَائِکَتَهُ وَجِبْرِيلَ وَمِيکَائِيلَ وَأَنَا وَأَبُو بَکْرٍ وَالْمُؤْمِنُونَ مَعَکَ وَقَلَّمَا تَکَلَّمْتُ وَأَحْمَدُ اللَّهَ بِکَلَامٍ إِلَّا رَجَوْتُ أَنْ يَکُونَ اللَّهُ يُصَدِّقُ قَوْلِي الَّذِي أَقُولُ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ آيَةُ التَّخْيِيرِ عَسَی رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْکُنَّ وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِکَةُ بَعْدَ ذَلِکَ ظَهِيرٌ وَکَانَتْ عَائِشَةُ بِنْتُ أَبِي بَکْرٍ وَحَفْصَةُ تَظَاهَرَانِ عَلَی سَائِرِ نِسَائِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَهُنَّ قَالَ لَا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَالْمُسْلِمُونَ يَنْکُتُونَ بِالْحَصَی يَقُولُونَ طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَائَهُ أَفَأَنْزِلُ فَأُخْبِرَهُمْ أَنَّکَ لَمْ تُطَلِّقْهُنَّ قَالَ نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَلَمْ أَزَلْ أُحَدِّثُهُ حَتَّی تَحَسَّرَ الْغَضَبُ عَنْ وَجْهِهِ وَحَتَّی کَشَرَ فَضَحِکَ وَکَانَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ ثَغْرًا ثُمَّ نَزَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَزَلْتُ فَنَزَلْتُ أَتَشَبَّثُ بِالْجِذْعِ وَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَأَنَّمَا يَمْشِي عَلَی الْأَرْضِ مَا يَمَسُّهُ بِيَدِهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا کُنْتَ فِي الْغُرْفَةِ تِسْعَةً وَعِشْرِينَ قَالَ إِنَّ الشَّهْرَ يَکُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَقُمْتُ عَلَی بَابِ الْمَسْجِدِ فَنَادَيْتُ بِأَعْلَی صَوْتِي لَمْ يُطَلِّقْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَائَهُ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَإِذَا جَائَهُمْ أَمْرٌ مِنْ الْأَمْنِ أَوْ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ فَکُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِکَ الْأَمْرَ وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ آيَةَ التَّخْيِيرِ
ایلاء اور عورتوں سے جدا ہونے اور انہیں اختیار دینے اور اللہ کے قول ان تظاہرا علیہ کے بیان میں
زہیر بن حرب، عمر بن یونس حنفی، عکرمہ بن عمار، سماک ابی زمیل، ابن عباس، حضرت عمر ؓ بن خطاب سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ جب اپنی ازواج ؓ سے علیحدہ ہوگئے اس وقت میں مسجد میں داخل ہوا تو لوگوں کو کنکریاں الٹ پلٹ کرتے ہوئے دیکھا وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے یہ انہیں پردے کا حکم دیئے جانے سے پہلے کا واقعہ ہے عمر ؓ نے کہا میں نے کہا میں آج کے حالات ضرور معلوم کروں گا پس میں سیدہ عائشہ ؓ کے پاس گیا اور کہا اے ابوبکر کی بیٹی تمہارا یہ حال کیا ہے کہ تم رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دینے لگی ہو انہوں نے کہا ابن خطاب مجھے تجھ سے اور تجھ کو مجھ سے کیا کام تم پر اپنی گٹھڑی کا خیال رکھنا لازم ہے حفصہ ؓ کا پھر میں حفصہ بنت عمر ؓ کے پاس گیا اور میں نے اسے کہا اے حفصہ! تمہارا یہ حال کیا ہے کہ تم رسول اللہ ﷺ کو ایذاء دینے لگی ہو اور اللہ کی قسم تو جانتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ تجھ سے محبت نہیں کرتے اور اگر میں نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ تجھے طلاق دے چکے ہوتے پس وہ روئیں اور خوب روئیں تو میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کہاں ہیں تو اس نے کہا وہ اپنے گودام اور بالاخانے (اوپر والے کمرے) میں ہیں، میں حاضر ہوا تو دیکھا رسول اللہ ﷺ کا غلام رباح اس بالاخانے کے دروازے پر اپنے پاؤں ایک کھدی ہوئی لکڑی پر لٹکائے جو کہ کھجور دکھائی دے رہی تھے بیٹھا تھا اور رسول اللہ ﷺ اس لکڑی پر سے چڑھتے اور اترتے تھے میں نے آواز دی اے رباح میرے لئے رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہونے کے لئے اجازت لو رباح نے کمرے کی طرف دیکھا پھر میری طرف دیکھا لیکن کوئی بات نہیں کی پھر میں نے کہا حاضر ہونے کی اجازت لو تو رباح نے بالاخانے کی طرف دیکھا پھر میری طرف دیکھا لیکن کوئی بات نہیں کی پھر میں نے بآواز بلند کہا اے رباح! میرے لئے رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت لو پس میں نے اندازہ لگایا کہ رسول اللہ ﷺ نے گمان کیا کہ میں حفصہ کی وجہ سے حاضر ہوا ہوں حالانکہ اللہ کی قسم اگر رسول اللہ ﷺ مجھے اس کی گردن مار دینے کا حکم دیتے تو میں اس کی گردن مار دیتا اور میں نے اپنی آواز کو بلند کیا تو اس نے اشارہ کیا کہ میں چڑھ آؤں پس میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ ﷺ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے میں بیٹھ گیا اور آپ ﷺ نے اپنی چادر اپنے اوپر لے لی اور آپ ﷺ کے پاس اس کے علاوہ کوئی کپڑا نہ تھا اور چٹائی کے نشانات آپ ﷺ کے پہلو (کمر) پر لگے ہوئے تھے پس میں نے رسول اللہ ﷺ کے خزانہ کو بغور دیکھا تو اس میں چند مٹھی جو تھے جو کہ ایک صاع کی مقدار میں ہوں گے اور اس کے برابر سلم کے پتے ایک کونے میں پڑے ہوئے تھے اور ایک کچا چمڑا جس کی دباغت اچھی طرح نہ ہوئی تھی لٹکا ہوا تھا پس میری آنکھیں بھر آئیں تو آپ ﷺ نے فرمایا اے ابن خطاب! تجھے کس چیز نے رلادیا؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! مجھے کیا ہوگیا کہ میں نہ روؤں حالانکہ یہ چٹائی کے نشانات آپ ﷺ کے پہلو پر ہیں اور یہ آپ ﷺ کا خزانہ ہے میں نہیں دیکھتا اس میں کچھ مگر وہی جو سامنے ہے اور وہ قیصر و کسری ہیں جو پھلوں اور نہروں میں زندگی گزارتے ہیں حالانکہ آپ ﷺ اللہ کے رسول اور اس کے برگزید بندے ہیں اور یہ آپ ﷺ کا خزانہ ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا اے ابن خطاب کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ ہمارے لئے آخرت ہے اور ان کے لئے دنیا؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں اور میں آپ ﷺ کے پاس جب حاضر ہوا تو میں نے آپ ﷺ کے چہرہ انور پر غصہ دیکھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ کو عورتوں کی طرف سے کیا مشکل پیش آئی اگر آپ ﷺ انہیں طلاق دے چکے ہیں تو اللہ آپ ﷺ کے ساتھ ہے نصرت ومدد اس کے فرشتے جبرائیل اور میکائیل ہیں اور ابوبکر اور مومنین آپ ﷺ کے ساتھ ہیں اور اکثرجب میں گفتگو کرتا اور اللہ کی تعریف کرتا کسی گفتگو کے ساتھ تو اس امید کے ساتھ کہ اللہ اس کی تصدیق کرے گا جو بات میں کرتا ہوں اور آیت تخیر نازل ہوئی (وَاِنْ تَظٰهَرَا عَلَيْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَجِبْرِيْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمَلٰ ى ِكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِيْرٌ۔ عَسٰى رَبُّه اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَه اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ ) 66۔ التحریم: 3۔ 4) قریب ہے کہ نبی اگر تم کو طلاق دے دیں تو اس کا پروردگار اس کو تم سے بہتر بیویاں عطا کر دے اور تم دونوں نے ان پر زور دیا تو اللہ ہی اس کا مددگار اور جبرائیل اور نیک مومنین اور فرشتے اس کے بعد پشت پناہی کرنے والے ہیں اور عائشہ ؓ بنت ابوبکر اور حفصہ نے نبی کریم ﷺ کی تمام بیویوں پر زور دیا تھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا آپ ﷺ نے انہیں طلاق دے دی ہے آپ ﷺ نے فرمایا نہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں مسجد میں داخل ہوا اور لوگ کنکریاں الٹ پلٹ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے کیا میں اتر کر انہیں خبر نہ دوں کہ آپ ﷺ نے انہیں طلاق نہیں دی آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اگر تو چاہے میں آپ ﷺ سے گفتگو میں مشغول رہا یہاں تک کہ غصہ آپ ﷺ کے چہرہ سے دور ہوگیا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے دانت مبارک کھولے اور مسکرائے اور آپ ﷺ کے دانتوں کی ہنسی سب لوگوں سے خوبصورت تھی پھر اللہ کے نبی اترے اور میں بھی اترا اس کھجور کی لکڑی کو پکڑتا ہوا اور رسول اللہ ﷺ اس طرح اترے گویا زمین پر چل رہے ہیں آپ ﷺ نے اس لکڑی کو ہاتھ تک نہ لگایا میں نے کہا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ انتیس دن سے اس کمرہ میں تھے آپ ﷺ نے فرمایا مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہو کر میں نے پکارا کہ آپ ﷺ نے اپنی ازواج کو طلاق نہیں دی اور یہ آیت نازل ہوئی (وَاِذَا جَا ءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِه وَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰ ى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْ بِطُوْنَه مِنْھُمْ ) 4۔ النساء: 83) جب ان کے پاس کوئی خبر چین یا خوف کی آتی ہے تو اسے مشہور کر دتیے ہیں اور اگر وہ اس کو رسول اللہ ﷺ اور اپنے اہل امر کی طرف لوٹاتے تو لوگ جان لیتے ان لوگوں کو جو ان میں سے استنباط کرنے والے ہیں تو میں نے اس سے اس حقیقت کو چن لیا پھر اللہ عزوجل نے آیت تخیر نازل کی۔
Top