صحیح مسلم - صلہ رحمی کا بیان - حدیث نمبر 6627
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَأَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا عِکْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ قَالَ کَانَتْ عِنْدَ أُمِّ سُلَيْمٍ يَتِيمَةٌ وَهِيَ أُمُّ أَنَسٍ فَرَأَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَتِيمَةَ فَقَالَ آنْتِ هِيَهْ لَقَدْ کَبِرْتِ لَا کَبِرَ سِنُّکِ فَرَجَعَتْ الْيَتِيمَةُ إِلَی أُمِّ سُلَيْمٍ تَبْکِي فَقَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ مَا لَکِ يَا بُنَيَّةُ قَالَتْ الْجَارِيَةُ دَعَا عَلَيَّ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَکْبَرَ سِنِّي فَالْآنَ لَا يَکْبَرُ سِنِّي أَبَدًا أَوْ قَالَتْ قَرْنِي فَخَرَجَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ مُسْتَعْجِلَةً تَلُوثُ خِمَارَهَا حَتَّی لَقِيَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَکِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ فَقَالَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَدَعَوْتَ عَلَی يَتِيمَتِي قَالَ وَمَا ذَاکِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَالَتْ زَعَمَتْ أَنَّکَ دَعَوْتَ أَنْ لَا يَکْبَرَ سِنُّهَا وَلَا يَکْبَرَ قَرْنُهَا قَالَ فَضَحِکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ أَمَا تَعْلَمِينَ أَنَّ شَرْطِي عَلَی رَبِّي أَنِّي اشْتَرَطْتُ عَلَی رَبِّي فَقُلْتُ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَرْضَی کَمَا يَرْضَی الْبَشَرُ وَأَغْضَبُ کَمَا يَغْضَبُ الْبَشَرُ فَأَيُّمَا أَحَدٍ دَعَوْتُ عَلَيْهِ مِنْ أُمَّتِي بِدَعْوَةٍ لَيْسَ لَهَا بِأَهْلٍ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهُ طَهُورًا وَزَکَاةً وَقُرْبَةً يُقَرِّبُهُ بِهَا مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ و قَالَ أَبُو مَعْنٍ يُتَيِّمَةٌ بِالتَّصْغِيرِ فِي الْمَوَاضِعِ الثَّلَاثَةِ مِنْ الْحَدِيثِ
نبی ﷺ کا ایسے آدمی پر لعنت کرنا یا اسکے خلاف دعا فرمانا حالانکہ وہ اس کا مستحق نہ ہو تو وہ ایسے آدمی کے لئے اجر اور رحمت ہے۔
زہیر بن حرب، ابومعن رقاشی زہیر اسحاق بن ابی طلحہ حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ ام سلیم کے پاس ایک یتیم بچی تھی اور وہ ام انس تھی رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا یہ تو وہی بچی ہے تو تو بڑی ہوگئی ہے اللہ کرے تیری عمر بڑی نہ ہو یہ سن کر وہ لڑکی ام سلیم کے پاس روتے ہوئے آئی ام سلیم نے کہا اے بیٹی تجھے کیا ہوا اس لڑکی نے کہا رسول اللہ ﷺ نے مجھے بد دعا دی ہے کہ میری عمر بڑی نہ ہو تو اب میں کبھی بوڑھی نہیں ہوں گی یا اس نے کہا میرا زمانہ زیادہ نہ ہوگا تو حضرت ام سلیم جلدی میں اپنے سر پر چادر اوڑھتے ہوئے نکلی یہاں تک کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا اے ام سلیم تجے کیا ہوا حضرت ام سلیم نے عرض کیا اے اللہ کے نبی کیا آپ ﷺ نے میری یتیم بچی کے لئے بد دعا کی ہے آپ نے فرمایا اے ام سلیم وہ کیا؟ حضرت ام سلیم نے عرض کیا اس بچی کا گمان ہے کہ آپ ﷺ نے اسے یہ بد دعا دی ہے کہ اس کی عمر بڑی نہ ہو اور نہ اس کا زمانہ بڑا ہو راوی کہتے ہیں کہ اس کی عمر بڑی نہ ہو اور نہ اس کا زمانہ بڑا ہو راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ سن کر ہنسے پھر فرمایا اے ام سلیم کیا تو نہیں جانتی کہ میں نے اپنے پروردگار سے شرط لگائی ہے اور میں نے عرض کیا ہے کہ میں ایک انسان ہوں میں راضی ہوتا ہوں جس طرح کہ انسان راضی ہوتا ہے اور مجھے غصہ آتا ہے جس طرح کہ انسان کو غصہ آتا ہے تو اگر میں اپنی امت میں سے کسی آدمی کو بد دعا دوں اور وہ اس بد دعا کا مستحق نہ ہو تو (اے اللہ! ) اس بد دعا کو اس کے لئے پاکیزگی کا سبب بنادینا اور اسے اس کے لئے ایسا قرب کرنا کہ جس سے وہ قیامت کے دن تجھ سے تقرب حاصل کرے۔ راوی ابومعن نے تینوں جگہ یتیمہ تصغیر کے ساتھ ذکر کیا۔
Top