صحیح مسلم - سورج گرہن کا بیان - حدیث نمبر 2102
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ عَنْ عَطَائٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ انْکَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّاسُ إِنَّمَا انْکَسَفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّی بِالنَّاسِ سِتَّ رَکَعَاتٍ بِأَرْبَعِ سَجَدَاتٍ بَدَأَ فَکَبَّرَ ثُمَّ قَرَأَ فَأَطَالَ الْقِرَائَةَ ثُمَّ رَکَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّکُوعِ فَقَرَأَ قِرَائَةً دُونَ الْقِرَائَةِ الْأُولَی ثُمَّ رَکَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّکُوعِ فَقَرَأَ قِرَائَةً دُونَ الْقِرَائَةِ الثَّانِيَةِ ثُمَّ رَکَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّکُوعِ ثُمَّ انْحَدَرَ بِالسُّجُودِ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ فَرَکَعَ أَيْضًا ثَلَاثَ رَکَعَاتٍ لَيْسَ فِيهَا رَکْعَةٌ إِلَّا الَّتِي قَبْلَهَا أَطْوَلُ مِنْ الَّتِي بَعْدَهَا وَرُکُوعُهُ نَحْوًا مِنْ سُجُودِهِ ثُمَّ تَأَخَّرَ وَتَأَخَّرَتْ الصُّفُوفُ خَلْفَهُ حَتَّی انْتَهَيْنَا وَقَالَ أَبُو بَکْرٍ حَتَّی انْتَهَی إِلَی النِّسَائِ ثُمَّ تَقَدَّمَ وَتَقَدَّمَ النَّاسُ مَعَهُ حَتَّی قَامَ فِي مَقَامِهِ فَانْصَرَفَ حِينَ انْصَرَفَ وَقَدْ آضَتْ الشَّمْسُ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَإِنَّهُمَا لَا يَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنْ النَّاسِ وَقَالَ أَبُو بَکْرٍ لِمَوْتِ بَشَرٍ فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِکَ فَصَلُّوا حَتَّی تَنْجَلِيَ مَا مِنْ شَيْئٍ تُوعَدُونَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي صَلَاتِي هَذِهِ لَقَدْ جِيئَ بِالنَّارِ وَذَلِکُمْ حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَأَخَّرْتُ مَخَافَةَ أَنْ يُصِيبَنِي مِنْ لَفْحِهَا وَحَتَّی رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَ الْمِحْجَنِ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ کَانَ يَسْرِقُ الْحَاجَّ بِمِحْجَنِهِ فَإِنْ فُطِنَ لَهُ قَالَ إِنَّمَا تَعَلَّقَ بِمِحْجَنِي وَإِنْ غُفِلَ عَنْهُ ذَهَبَ بِهِ وَحَتَّی رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَةَ الْهِرَّةِ الَّتِي رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْکُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّی مَاتَتْ جُوعًا ثُمَّ جِيئَ بِالْجَنَّةِ وَذَلِکُمْ حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَقَدَّمْتُ حَتَّی قُمْتُ فِي مَقَامِي وَلَقَدْ مَدَدْتُ يَدِي وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَتَنَاوَلَ مِنْ ثَمَرِهَا لِتَنْظُرُوا إِلَيْهِ ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ لَا أَفْعَلَ فَمَا مِنْ شَيْئٍ تُوعَدُونَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي صَلَاتِي هَذِهِ
نماز کسوف کے وقت جنت دوزخ کے بارے میں نبی ﷺ کے سامنے کیا پیش کیا گیا۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ ابن نمیر، ح، عبدالملک، عطاء، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ جس دن ابراہیم بن رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اس دن سورج گرہن ہوا تو لوگوں نے کہا کہ یہ گرہن ابراہیم کی موت کی وجہ سے ہوا ہے تو نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو چھ رکوعات اور چار سجدات کے ساتھ (دو رکعت) پڑھائیں، شروع میں تکبیر کہی پھر خوب لمبی قرأت کی پھر اسی طرح رکوع کیا جس طرح قیام کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا تو دوسری قرأت سے کم قرأت کی پھر کھڑے ہونے کی مقدار رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا پھر سجود کے لئے جھکے تو دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے تو اسی طرح ایک رکعت تین رکوعات کے ساتھ ادا کی اس طرح کہ اس میں ہر بعد والا رکوع اپنے سے پہلے والے رکوع سے کم ہوتا اور ہر رکوع سجدہ کے برابر تھا پھر آپ ﷺ پیچھے ہٹے اور آپ ﷺ سے پیچھے والی صفیں بھی پیچھے ہوئیں یہاں تک کہ ہم عورتوں کے قریب آگئے پھر آپ ﷺ آگے بڑھے اور صحابہ آپ ﷺ کے ساتھ آگے بڑھے یہاں تک کہ اپنی جگہ پر جا کھڑے ہوئے یہاں تک کہ آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے اور سورج کھل چکا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اور یہ لوگوں میں سے کسی کی موت کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے، ابوبکر نے کہا کسی بشر کی موت کی وجہ سے جب تم اس میں کوئی چیز دیکھو تو نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ روشن ہوجائے، ہر وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے میں نے اپنی اس نماز میں اسے دیکھا ہے، میرے پاس دوزخ لائی گئی یہ اس وقت تھا جب تم نے مجھے اس کی لپٹ کے خوف سے پیچھے ہوتے دیکھا یہاں تک کہ میں نے اس میں نو کیلی لکڑی والے کو دیکھا جو اپنی انتڑیوں کو آگ میں کھینچتا تھا یہ حاجیوں کے کپڑے وغیرہ آنکڑے میں ڈال کر چرایا کرتا تھا اگر کسی کو اطلاع ہوجاتی تو کہتا کہ وہ آنکڑے میں الجھ گئی ہے اور اگر اسے پتہ نہ چلتا تو وہ لے کر چلا جاتا اور یہاں تک کہ اس میں میں نے ایک بلی والی کو دیکھا جس نے اس کو باندھ دیا تھا اور نہ تو اس کو کھلاتی اور نہ چھوڑتی تھی کہ وہ زمین میں سے کیڑے مکوڑے کھالے یہاں تک کہ مرگئی، پھر میرے پاس جنت لائی گئی یہ اس وقت جب تم نے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ میں اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا اور میں نے اپنا ہاتھ دراز کر کے اس کا پھل لینا چاہا تاکہ تمہیں دکھاؤں پھر میرا ارادہ ہوا کہ ایسا نہ کروں ہر وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے میں نے اس کی اپنی اس نماز میں دیکھا ہے۔
Top