صحیح مسلم - زہد و تقوی کا بیان - حدیث نمبر 7521
حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ يَقُولُا جَائَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّيقُ إِلَی أَبِي فِي مَنْزِلِهِ فَاشْتَرَی مِنْهُ رَحْلًا فَقَالَ لِعَازِبٍ ابْعَثْ مَعِيَ ابْنَکَ يَحْمِلْهُ مَعِي إِلَی مَنْزِلِي فَقَالَ لِي أَبِي احْمِلْهُ فَحَمَلْتُهُ وَخَرَجَ أَبِي مَعَهُ يَنْتَقِدُ ثَمَنَهُ فَقَالَ لَهُ أَبِي يَا أَبَا بَکْرٍ حَدِّثْنِي کَيْفَ صَنَعْتُمَا لَيْلَةَ سَرَيْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ أَسْرَيْنَا لَيْلَتَنَا کُلَّهَا حَتَّی قَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ وَخَلَا الطَّرِيقُ فَلَا يَمُرُّ فِيهِ أَحَدٌ حَتَّی رُفِعَتْ لَنَا صَخْرَةٌ طَوِيلَةٌ لَهَا ظِلٌّ لَمْ تَأْتِ عَلَيْهِ الشَّمْسُ بَعْدُ فَنَزَلْنَا عِنْدَهَا فَأَتَيْتُ الصَّخْرَةَ فَسَوَّيْتُ بِيَدِي مَکَانًا يَنَامُ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ظِلِّهَا ثُمَّ بَسَطْتُ عَلَيْهِ فَرْوَةً ثُمَّ قُلْتُ نَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَنَا أَنْفُضُ لَکَ مَا حَوْلَکَ فَنَامَ وَخَرَجْتُ أَنْفُضُ مَا حَوْلَهُ فَإِذَا أَنَا بِرَاعِي غَنَمٍ مُقْبِلٍ بِغَنَمِهِ إِلَی الصَّخْرَةِ يُرِيدُ مِنْهَا الَّذِي أَرَدْنَا فَلَقِيتُهُ فَقُلْتُ لِمَنْ أَنْتَ يَا غُلَامُ فَقَالَ لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ قُلْتُ أَفِي غَنَمِکَ لَبَنٌ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ أَفَتَحْلُبُ لِي قَالَ نَعَمْ فَأَخَذَ شَاةً فَقُلْتُ لَهُ انْفُضْ الضَّرْعَ مِنْ الشَّعَرِ وَالتُّرَابِ وَالْقَذَی قَالَ فَرَأَيْتُ الْبَرَائَ يَضْرِبُ بِيَدِهِ عَلَی الْأُخْرَی يَنْفُضُ فَحَلَبَ لِي فِي قَعْبٍ مَعَهُ کُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ قَالَ وَمَعِي إِدَاوَةٌ أَرْتَوِي فِيهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَشْرَبَ مِنْهَا وَيَتَوَضَّأَ قَالَ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُ مِنْ نَوْمِهِ فَوَافَقْتُهُ اسْتَيْقَظَ فَصَبَبْتُ عَلَی اللَّبَنِ مِنْ الْمَائِ حَتَّی بَرَدَ أَسْفَلُهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اشْرَبْ مِنْ هَذَا اللَّبَنِ قَالَ فَشَرِبَ حَتَّی رَضِيتُ ثُمَّ قَالَ أَلَمْ يَأْنِ لِلرَّحِيلِ قُلْتُ بَلَی قَالَ فَارْتَحَلْنَا بَعْدَمَا زَالَتْ الشَّمْسُ وَاتَّبَعَنَا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِکٍ قَالَ وَنَحْنُ فِي جَلَدٍ مِنْ الْأَرْضِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُتِينَا فَقَالَ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَدَعَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَارْتَطَمَتْ فَرَسُهُ إِلَی بَطْنِهَا أُرَی فَقَالَ إِنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّکُمَا قَدْ دَعَوْتُمَا عَلَيَّ فَادْعُوَا لِي فَاللَّهُ لَکُمَا أَنْ أَرُدَّ عَنْکُمَا الطَّلَبَ فَدَعَا اللَّهَ فَنَجَا فَرَجَعَ لَا يَلْقَی أَحَدًا إِلَّا قَالَ قَدْ کَفَيْتُکُمْ مَا هَاهُنَا فَلَا يَلْقَی أَحَدًا إِلَّا رَدَّهُ قَالَ وَوَفَی لَنَا
جناب نبی ﷺ کا واقعہ ہجرت کے بیان میں
سلمہ بن شبیب، حسن بن اعین، زہیر، ابواسحاق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب ؓ سنا وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ میرے والد کے گھر میں تشریف لائے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا پھر عازب یعنی میرے والد سے فرمایا کہ اپنے بیٹے (براء) کو میرے ساتھ بھیج دیں تاکہ وہ اس کجاوہ کو اٹھا کر میرے گھر لے چلے اور پھر میرے والد نے مجھ سے کہا کہ اسے اٹھا لے تو میں نے اس کجاوے کو اٹھا لیا اور میرے والد بھی حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ اس کجاوے کی قیمت وصول کرنے کے لئے نکلے تو میرے والد نے حضرت ابوبکر ؓ سے فرمایا اے ابوبکر مجھ سے بیان فرمائیں کہ جس رات تم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گئے تھے (یعنی تم نے ملکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک کا جو سفر آپ ﷺ کے ساتھ کیا ہے اس کی کیفیت بیان کیجئے) حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: اچھا! (اور پھر فرمایا کہ) ہم ساری رات چلتے رہے یہاں تک کہ دن چڑھ گیا اور ٹھیک دوپہر کا وقت ہوگیا اور راستہ خالی ہوگیا اور راستے میں کوئی گزرنے والا نہ رہا یہاں تک کہ ہمیں سامنے ایک لمبا پتھر دکھائی دیا جس کا سایہ زمین پر تھا اور ابھی تک وہاں دھوپ نہیں آئی تھی پھر ہم اس کے پاس اترے اور میں نے اس پتھر کے پاس جا کر اپنے ہاتھ سے جگہ صاف کی تاکہ نبی ﷺ اس کے سائے میں آرام فرمائیں پھر میں نے اس جگہ پر ایک دری بچھا دی پھر میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ آرام فرمائیں اور میں آپ ﷺ کے اردگرد ہر طرف سے بیدار رہتا ہوں پھر آپ ﷺ سو گئے اور میں آپ کے اردگرد جاگ کر پہرہ دیتا رہا پھر میں نے سامنے کی طرف سے بکریوں کا ایک چرواہا دیکھا جو اپنی بکریوں کو لئے ہوئے اس پتھر کی طرف آرہا ہے اور چرواہا بھی اس پتھر سے وہی چاہتا تھا جو ہم نے چاہا (یعنی آرام) میں نے اس چرواہے سے ملاقات کی اور میں نے اس سے کہا اے لڑکے تو کس کا غلام ہے اس نے کہ میں مدینہ والوں میں سے ایک آدمی کا غلام ہوں میں نے کہا تیری بکریوں میں دودھ ہے اس نے کہا ہاں میں نے کہا کیا تو مجھے دودھ دے گا اس نے کہا ہاں پھر اس چرواہے نے ایک بکری پکڑی تو میں نے اس چرواہے سے کہا اس بکری کے تھن کو بالوں مٹی اور کچرے وغیرہ سے صاف کرلے راوی ابواسحاق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء کو دیکھا کہ وہ اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مار کر دکھا رہے تھے اس چرواہے نے لکڑی کے ایک پیالے میں تھوڑا سا دودھ دوہا حضرت ابوبکر ؓ فرماتے ہیں کہ میرے پاس ایک ڈول تھا کہ جس میں نبی ﷺ کے پینے کے لئے اور وضو کے لئے پانی تھا حضرت ابوبکر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں آیا اور میں نے ناپسند سمجھا کہ میں آپ ﷺ کو نیند سے بیدا کروں لیکن آپ خود ہی بیدار ہوگئے پھر میں نے دودھ پر پانی بہایا تاکہ دودھ ٹھنڈا ہوجائے پھر میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ دودھ نوش فرمائیں حضرت ابوبکر ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے وہ دودھ پیا یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہاں سے کوچ کرنے کو وقت نہیں آیا میں نے عرض کیا جی ہاں وہ وقت آگیا ہے حضرت ابوبکر ؓ فرماتے ہیں کہ پھر ہم سورج ڈھلنے کے بعد چلے اور سراقہ بن مالک نے ہمارا پیچھا کیا حضرت ابوبکر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم جس زمین پر تھے وہ سخت زمین تھی میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کافر ہم تک آگئے آپ ﷺ نے فرمایا فکر نہ کر کیونکہ ہمارے ساتھ اللہ ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے سراقہ کے لئے بد دعا فرمائی تو سراقہ کا گھوڑا اپنے پیٹ تک زمین میں دھنس گیا سراقہ کہنے لگا مجھے معلوم ہے کہ تم نے میرے لئے بد دعا کی ہے اب تم میرے لئے دعا کرو اللہ کی قسم اب جو بھی آپ حضرات کی تلاش میں آئے گا میں اسے واپس کر دوں گا آپ ﷺ نے اس کے لئے اللہ سے دعا فرمائی تو اسے نجات مل گئی اور وہ واپس لوٹ گیا اور اسے جو کوئی کافر بھی ملتا وہ اسے کہہ دیتا کہ میں اس طرف دیکھ آیا ہوں سراقہ کو جو کافر بھی ملتا وہ اسے واپس لوٹا دیتا۔ حضرت ابوبکر ؓ فرماتے ہیں کہ سراقہ نے جو ہم سے کہا وہ اس نے پورا کیا۔
Top