مکہ مکرمہ میں شکار کی حرمت کا بیان
زہیر بن حرب، عبیداللہ بن سعید، ولید، زہیر، ولید بن مسلم، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ، ابن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب اللہ نے اپنے رسول ؓ پر مکہ کو فتح فرمایا تو آپ ﷺ لوگوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد وثنا بیان کی پھر فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے ہاتھ والوں کو روکا تھا اور اللہ نے مکہ پر اپنے رسول ﷺ اور مومنوں کو غلبہ عطا فرمایا اور مجھ سے پہلے کسی کے لئے بھی مکہ حلال نہیں تھا اور میرے لئے بھی ایک دن کے کچھ وقت کے لئے حلال ہوا تھا اور اب میرے بعد بھی کسی کے لئے حلال نہیں ہوگا اس لئے یہاں سے شکار بھگایا نہ جائے اور نہ ہی یہاں کے کانٹے کاٹے جائیں اور نہ ہی یہاں کی گری ہوئی چیز کسی کے لئے حلال ہے سوائے اعلان کرنے والے کے یعنی گمشدہ چیز کو اٹھا کر اگر اس کا اعلان کرے اسے اس تک پہنچائے تو اس کے لئے حلال ہے اور جس آدمی کو کوئی قتل کر دے تو اس کے لواحقین کے لئے دو چیز میں سے ایک کا اختیار ہے یا اس کی دیت لے لے یا اسے قصاصاً قتل کر دے حضرت ابن عباس ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول گھاس کو مستثنی فرما دیں کیونکہ ہم اسے اپنی قبروں اور گھروں میں استعمال کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے گھاس کو مستثنی فرما دیا (یعنی حرم کی حدود میں گھاس کاٹنے کی اجازت ہے) تو ابوشاہ کھڑا ہوا جو کہ یمن کا ایک آدمی تھا اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے یہ لکھوا دیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابوشاہ کو لکھ دو ولید کہتے ہیں کہ میں نے اوزاعی سے کہا کہ ابوشاہ کے اس کہنے کا کیا مطلب ہے؟ اے اللہ کے رسول مجھے لکھوا دیں انہوں نے کہا کہ وہ خطبہ کہ جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا۔