وعظ ونصیحت میں میانہ روی اختیار کرنے کے بیان میں
ہارون بن معروف، ہارون بن سعید ایلی ابن وہب، ابوصخر، ابوحازم، حضرت سہل بن سعد ساعدی فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ کی ایک ایسی مجلس میں موجود تھا کہ جس میں آپ ﷺ نے جنت کی بہت تعریف بیان فرمائی یہاں تک کہ انتہا ہوگئی پھر آپ نے اپنے بیان کے آخر میں فرمایا کہ جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں کہ جن کو نہ تو کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل پر ان کا خیال گزرا پھر آپ ﷺ نے یہ آیت کریمہ پڑھی (تَ تَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّمِ مَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ 16 فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ جَزَا ءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) 32۔ السجدہ: 16۔ 17) جدا رہتی ہیں ان کی کروٹیں اپنے سونے کی جگہوں سے پکارتے ہیں اپنے رب کو ڈر سے اور لالچ سے اور ہمارا دیا ہو اخرچ کرتے ہیں سو کسی جی کو معلوم نہیں جو چھپا رکھی ہے ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بدلہ ہے اس کا جو وہ کرتے تھے۔