صحیح مسلم - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 2202
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ عَنْ مَعْبَدِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ أَنَّهُ کَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَيْهِ بِجَنَازَةٍ فَقَالَ مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْمُسْتَرِيحُ وَالْمُسْتَرَاحُ مِنْهُ فَقَالَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَالْعَبْدُ الْفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ الْعِبَادُ وَالْبِلَادُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ
آرام پانے والے یا اس سے راحت حاصل کرنے والے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، محمد بن عمرو بن حلحلہ، معبد بن کعب بن مالک، حضرت ابوقتادہ ؓ بن ربعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ ﷺ نے فرمایا آرام پانے والا ہے یا اس سے آرام پایا گیا ہے صحابہ ؓ نے عرض کیا مستریح و مستراح منہ سے کیا مراد ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا مومن آدمی دنیا کی مصیبتوں سے آرام پاتا ہے اور فاجر و بدکار آدمی سے بندے شہر درخت اور جانور آرام پاتے ہیں۔
Top