سنن ابو داؤد - طلاق کا بیان - حدیث نمبر 2185
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ الْعَطَّارُ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ قَالَ نَزَلَ عَلَيْنَا أَضْيَافٌ لَنَا قَالَ وَکَانَ أَبِي يَتَحَدَّثُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ اللَّيْلِ قَالَ فَانْطَلَقَ وَقَالَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ افْرُغْ مِنْ أَضْيَافِکَ قَالَ فَلَمَّا أَمْسَيْتُ جِئْنَا بِقِرَاهُمْ قَالَ فَأَبَوْا فَقَالُوا حَتَّی يَجِيئَ أَبُو مَنْزِلِنَا فَيَطْعَمَ مَعَنَا قَالَ فَقُلْتُ لَهُمْ إِنَّهُ رَجُلٌ حَدِيدٌ وَإِنَّکُمْ إِنْ لَمْ تَفْعَلُوا خِفْتُ أَنْ يُصِيبَنِي مِنْهُ أَذًی قَالَ فَأَبَوْا فَلَمَّا جَائَ لَمْ يَبْدَأْ بِشَيْئٍ أَوَّلَ مِنْهُمْ فَقَالَ أَفَرَغْتُمْ مِنْ أَضْيَافِکُمْ قَالَ قَالُوا لَا وَاللَّهِ مَا فَرَغْنَا قَالَ أَلَمْ آمُرْ عَبْدَ الرَّحْمَنِ قَالَ وَتَنَحَّيْتُ عَنْهُ فَقَالَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ قَالَ فَتَنَحَّيْتُ قَالَ فَقَالَ يَا غُنْثَرُ أَقْسَمْتُ عَلَيْکَ إِنْ کُنْتَ تَسْمَعُ صَوْتِي إِلَّا جِئْتَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ وَاللَّهِ مَا لِي ذَنْبٌ هَؤُلَائِ أَضْيَافُکَ فَسَلْهُمْ قَدْ أَتَيْتُهُمْ بِقِرَاهُمْ فَأَبَوْا أَنْ يَطْعَمُوا حَتَّی تَجِيئَ قَالَ فَقَالَ مَا لَکُمْ أَنْ لَا تَقْبَلُوا عَنَّا قِرَاکُمْ قَالَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ فَوَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ اللَّيْلَةَ قَالَ فَقَالُوا فَوَاللَّهِ لَا نَطْعَمُهُ حَتَّی تَطْعَمَهُ قَالَ فَمَا رَأَيْتُ کَالشَّرِّ کَاللَّيْلَةِ قَطُّ وَيْلَکُمْ مَا لَکُمْ أَنْ لَا تَقْبَلُوا عَنَّا قِرَاکُمْ قَالَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا الْأُولَی فَمِنْ الشَّيْطَانِ هَلُمُّوا قِرَاکُمْ قَالَ فَجِيئَ بِالطَّعَامِ فَسَمَّی فَأَکَلَ وَأَکَلُوا قَالَ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَرُّوا وَحَنِثْتُ قَالَ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ بَلْ أَنْتَ أَبَرُّهُمْ وَأَخْيَرُهُمْ قَالَ وَلَمْ تَبْلُغْنِي کَفَّارَةٌ
مہمان کا اکرام اور ایثار کی فضیلت کے بیان میں
محمد بن مثنی، سالم بن نوح عطار جریری، ابوعثمان، عبدالرحمن بن ابوبکر، حضرت عبدالرحمن بن ابی ابکر ؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ مہمان آئے اور میرے والد رات کے وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے۔ حضرت عبدالرحمن ؓ کہتے ہیں کہ وہ یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ اے عبدالرحمن! مہمانوں کی خبرگیری کرنا۔ راوی کہتے ہیں کہ جب شام ہوئی تو ہم مہمانوں کے سامنے کھانا لے کر آئے تو انہوں نے کھانے سے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ جب تک گھر والے ہمارے ساتھ کھانا نہیں کھائیں گے اس وقت تک ہم کھانا نہیں کھائیں گے۔ میں نے کہا میرے والد سخت مزاج آدمی ہیں اگر تم کھانا نہیں کھاؤں گے تو مجھے خطرہ ہے کہ کہیں مجھے ان سے کوئی تکلیف نہ اٹھانی پڑجائے (لیکن اس کے باوجود) مہمانوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا تو جب حضرت ابوبکر ؓ آئے تو انہوں نے سب سے پہلے مہمانوں ہی کے بارے میں پوچھا اور فرمایا کیا تم اپنے مہمانوں سے فارغ ہوگئے ہو؟ راوی کہتے ہیں انہوں نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم! ابھی ہم فارغ نہیں ہوئے حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں ایک طرف ہوگیا (یعنی چھپ گیا) انہوں نے (آواز دے کر) کہا اے عبدالرحمن میں اس طرف سے ہٹ گیا (یعنی چھپ گیا) پھر انہوں نے فرمایا او نالائق! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ اگر تو میری آواز سن رہا ہے تو آجا۔ حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ پھر میں آگیا اور میں نے عرض کیا اللہ کی قسم! میرا کوئی گناہ نہیں یہ آپ کے مہمان موجود ہیں آپ ان سے (خود) پوچھ لیں میں نے ان کے سامنے کھانا لا کر رکھ دیا تھا انہوں نے آپ کے بغیر کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا حضرت ابوبکر نے ان مہمانوں سے فرمایا تمہیں کیا ہوا کہ تم نے ہمارا کھانا قبول نہیں کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ (یہ کہہ کر) فرمانے لگے اللہ کی قسم! میں آج رات کھانا نہیں کھاؤں گا۔ مہمانوں نے کہا اللہ کی قسم! ہم بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھائیں گے جب تک کہ آپ کھانا نہیں کھائیں گے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا میں نے آج کی رات کی طرح بدترین رات کبھی نہیں دیکھی تم پر افسوس ہے کہ تم لوگ ہماری مہمان نوازی کیوں نہیں قبول کرتے۔ (پھر کچھ دیر بعد) حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا میرا قسم کھانا شیطانی فعل تھا چلو لاؤ کھانا لاؤ۔ چناچہ کھانا لایا گیا آپ نے اللہ کا نام لے کر (یعنی بسم اللہ پڑھ کر) کھانا کھایا اور مہمانوں نے بھی کھانا کھایا پھر جب صبح ہوئی تو حضرت ابوبکر ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! مہمانوں کی قسم پوری ہوگئی اور میری جھوٹی اور یہ کہ سارے واقعہ کی آپ ﷺ کو خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں بلکہ تمہاری قسم تو سب سے زیادہ پوری ہوئی ہے اور تم سب سے زیادہ سچے ہو۔ حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات نہیں پہنچی کہ انہوں نے (قسم کا کفارہ ادا کیا تھا یا نہیں)۔
Abdul Rahman bin Abu Bakr (RA) reported: There came to our house some guests. It was a common practice with my father to (go) and talk to Allahs Messenger ﷺ during the night. While going he said: Abdul Rahman, entertain the guests. When it was evening we served the food to them, but they refused saying: So long as the owner of the house does not come and join us, we would not take the meal. I said to them: He (Abu Bakr) is a stern person, and if you would not do that (if you do not take the food), I fear, I may be harmed by him, but they refused. As he (my father) came, the first thing he asked was: Have you served the guests? They (the people of the household) said: We have not served them so far. He said: Did I not command Abdul Rahman (to do this)? He (Abdul Rahman) said: I sunk away and kept myself away by that time. He again said: O stupid fellow, I ask you on oath that in case you hear my voice you come to me. I came and said: By Allah, there is no fault of mine. These are your guests; you may ask them. I provided them with food but they refused to eat until you came. He said to them: Why is it that you did not accept our food? By Allah, I shall not even take food tonight (as you have not taken). They said: By Allah, we would not take until you join us. Thereupon he Abu Bakr (RA) said: I have never seen a more unfortunate night than this. Woe be to thee! that you do not accept from us food prepared for you. He again said: What I did first (that is the taking of vow for not eating the food) was prompted by the Satan. Bring the food. The food was brought, and he ate by reciting the name of Allah and they also ate, and when it was morning he came to Allahs Apostle ﷺ and said: Allahs Messenger, their oath (that of the guests) came to be true, but mine was not true, and after that he informed him of the whole incident. He said: Your oath came to be the most true and you are the best of them. He (the narrator) said. I do not know whether he made an atonement for it.
Top