صحیح مسلم - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 321
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی الْعَنَزِيُّ وَأَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ وَإِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ کُلُّهُمْ عَنْ أَبِي عَاصِمٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ يَعْنِي أَبَا عَاصِمٍ قَالَ أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ قَالَ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ قَالَ حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ فَبَکَی طَوِيلًا وَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَی الْجِدَارِ فَجَعَلَ ابْنُهُ يَقُولُ يَا أَبَتَاهُ أَمَا بَشَّرَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِکَذَا أَمَا بَشَّرَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِکَذَا قَالَ فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ فَقَالَ إِنَّ أَفْضَلَ مَا نُعِدُّ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ إِنِّي کُنْتُ عَلَی أَطْبَاقٍ ثَلَاثٍ لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَمَا أَحَدٌ أَشَدَّ بُغْضًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي وَلَا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَکُونَ قَدْ اسْتَمْکَنْتُ مِنْهُ فَقَتَلْتُهُ فَلَوْ مُتُّ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ لَکُنْتُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَلَمَّا جَعَلَ اللَّهُ الْإِسْلَامَ فِي قَلْبِي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ ابْسُطْ يَمِينَکَ فَلْأُبَايِعْکَ فَبَسَطَ يَمِينَهُ قَالَ فَقَبَضْتُ يَدِي قَالَ مَا لَکَ يَا عَمْرُو قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا قُلْتُ أَنْ يُغْفَرَ لِي قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَهُ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلِهَا وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَهُ وَمَا کَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا أَجَلَّ فِي عَيْنِي مِنْهُ وَمَا کُنْتُ أُطِيقُ أَنْ أَمْلَأَ عَيْنَيَّ مِنْهُ إِجْلَالًا لَهُ وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ لِأَنِّي لَمْ أَکُنْ أَمْلَأُ عَيْنَيَّ مِنْهُ وَلَوْ مُتُّ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ثُمَّ وَلِينَا أَشْيَائَ مَا أَدْرِي مَا حَالِي فِيهَا فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلَا نَارٌ فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا حَتَّی أَسْتَأْنِسَ بِکُمْ وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي
اس بات کے بیان میں کہ اسلام اور حج اور ہجرت پہلے گناہوں کو مٹادیتے ہیں
محمد بن مثنی عنزی، ابومعن، اسحاق بن منصور، ابوعاصم، ابن مثنی، ضحاک، ابوعاصم، حیوہ بن شریح، یزید بن ابی حبیب، ابن شماسہ کہ ہم عمرو بن العاص ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب وہ مرض الموت میں مبتلا تھے وہ بہت دیر تک روتے رہے اور چہرہ مبارک دیوار کی طرف پھیرلیا ان کے بیٹے ان سے کہہ رہے تھے کہ اے ابا جان کیوں رو رہے ہیں کیا اللہ کے رسول ﷺ نے آپ ﷺ کو یہ بشارت نہیں سنائی؟ حضرت عمرو بن العاص ؓ ادھر متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہمارے نزدیک سب سے افضل عمل اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور مجھ پر تین دور گزرے ہیں ایک دور تو وہ ہے جو تم نے دیکھا کہ میرے نزدیک اللہ کے رسول ﷺ سے زیادہ کوئی مبغوض نہیں تھا اور مجھے یہ سب سے زیادہ پسند تھا کہ آپ ﷺ پر قابو پا کر آپ ﷺ کو قتل کر دوں اگر میری موت اس حالت میں آجاتی تو میں دوزخی ہوتا پھر جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کروں، آپ ﷺ نے فرمایا اے عمرو کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط ہے آپ ﷺ نے فرمایا کیا شرط ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ شرط کہ کیا میرے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے عمرو کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام لانے سے اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور ہجرت سے اس کے سارے گذشتہ اور حج کرنے سے بھی اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں؟ اور رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر مجھے کسی سے محبت نہیں تھی اور نہ ہی میری نظر میں آپ ﷺ سے زیادہ کسی کا مقام تھا اور آپ ﷺ کی عظمت کی وجہ سے مجھ میں آپ ﷺ کو بھر پور نگاہ سے دیکھنے کی سکت نہ تھی اور اگر کوئی مجھ سے آپ ﷺ کی صورت مبارک کے متعلق پوچھتے تو میں بیان نہیں کرسکتا کیونکہ میں آپ ﷺ کو بوجہ عظمت و جلال دیکھ نہ سکا، اگر اس حال میں میری موت آجاتی تو مجھے جنتی ہونے کی امید تھی پھر اس کے بعد ہمیں کچھ ذمہ داریاں دی گئیں اب مجھے پتہ نہیں کہ میرا کیا حال ہوگا پس جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے جنازے کے ساتھ نہ کوئی رونے والی ہو اور نہ آگ ہو جب تم مجھے دفن کردو تو مجھ پر مٹی ڈال دینا اس کے بعد میری قبر کے اردگرد اتنی دیر ٹھہر نا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ تمہارے قرب سے مجھے انس حاصل ہو اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔
Top