مشکوٰۃ المصابیح - عدت کا بیان - حدیث نمبر 3335
عن زينب بنت كعب : أن الفريعة بنت مالك بن سنان وهي أخت أبي سعيد الخدري أخبرتها أنها جاءت رسول الله صلى الله عليه و سلم تسأله أن ترجع إلى أهلها في بني خدرة فإن زوجها خرج في طلب أعبد له أبقوا فقتلوه قالت : فسألت رسول الله صلى الله عليه و سلم أن أرجع إلى أهلي فإن زوجي لم يتركني في منزل يملكه ولا نفقة فقالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : نعم . فانصرفت حتى إذا كنت في الحجرة أو في المسجد دعاني فقال : امكثي في بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله . قالت : فاعتددت فيه أربعة أشهر وعشرا . رواه مالك والترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي
معتدہ کو بلاضرورت ایک مکان سے دوسرے مکان میں منتقل ہوناجائز نہیں
حضرت زینب بنت کعب فرماتی ہیں کہ فریعہ بنت مالک بن سنان نے جو حضرت ابوسعید خدری کی بہن ہیں مجھے بتایا کہ وہ فریعہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں یہ پوچھنے کے لئے حاضر ہوئیں کہ کیا وہ اپنی عدت گزارنے کے لئے اپنے میکہ بنی خدرہ میں منتقل ہوسکتی ہیں کیونکہ ان کے شوہر اپنے بھاگے ہوئے غلاموں کی تلاش میں گئے تھے کہ ان غلاموں نے انہیں مار ڈالا چناچہ فریعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ میں اپنے میکے میں آجاؤں کیونکہ میرے شوہر نے مجھے جس مکان میں چھوڑا ہے وہ اس کے مالک نہیں تھے (یعنی میں جس مکان میں رہتی ہوں وہ ان کی ملکیت میں نہیں تھا) اور نہ ہی میرے پاس کھانے پینے کے خرچ کا کوئی انتظام ہے۔ فریعہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ بہتر ہے کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ چناچہ میں یہ اجازت حاصل کر کے واپس ہوئی اور جب حجرہ مبارکہ کے صحن میں یا مسجد نبوی میں پہنچی تو آپ ﷺ نے مجھے پھر بلایا اور فرمایا تم اپنے اسی گھر میں عدت میں بیٹھو جس میں تمہارے شوہر کے مرنے کی خبر آئی ہے اگرچہ وہ تمہارے شوہر کی ملکیت میں نہیں ہے تاآنکہ کتاب یعنی عدت اپنی مدت تک پہنچ جائے فریعہ کہتی ہیں کہ میں آنحضرت ﷺ کے اس حکم کے مطابق چار مہینہ دس دن تک اسی مکان میں عدت میں بیٹھی رہی ( مالک ترمذی ابوداؤد نسائی ابن ماجہ دارمی)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معتدہ (یعنی عدت میں بیٹھی ہوئی عورت) کو بلا ضرورت ایک مکان سے دوسرے مکان میں اٹھ آنا درست نہیں ہے۔ شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ جو عورت اپنے خاوند کے مرجانے کی وجہ سے عدت میں بیٹھی ہو اس کے لئے سکنی یعنی شوہر ہی کے مکان میں عدت گزارنا) ضروری ہے یا نہیں چناچہ اس سلسلہ میں حضرت امام شافعی کے دو قول ہیں جس میں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس کے لئے سکنی ضروری ہے حضرت عمر حضرت عثمان حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت عبداللہ ابن عمر بھی اسی کے قائل تھے ان کی طرف سے یہی حدیث بطور دلیل پیش کی جاتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے پہلے تو فریعہ کو مکان منتقل کرنے کی اجازت دے دی مگر پھر آپ ﷺ نے ان کو منتقل ہونے سے منع کردیا اور یہ حکم دیا کہ وہ اپنے شوہر کے اسی مکان میں عدت کے دن گزاریں اس سے ثابت ہوا کہ فریعہ کو پہلے آپ ﷺ کا اجازت دینا آپ ﷺ کے اس حدیث (امکثی فی بیتک) الخ تم اپنے اسی گھر میں عدت میں بیٹھو) کے ذریعہ منسوخ ہوگیا۔ حضرت امام شافعی کا دوسرا قول یہ ہے کہ معتدہ وفات کے لئے سکنی ضروری نہیں ہے بلکہ وہ جہاں چاہے عدت میں بیٹھ جائے اور یہی قول حضرت علی حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ کا بھی تھا اس قول کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فریعہ کو مکان میں منتقل ہونے کی اجازت عطا فرما دی تھی اور پھر بعد میں آپ ﷺ نے ان کو اپنے ہی مکان میں عدت گزارنے کا جو حکم فرمایا وہ استحباب کے طور پر تھا اس مسئلہ میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا جو مسلک ہے وہ انشاء اللہ باب النفقات کے ابتداء میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
Top